’’پھل دیکھتی ہوں، تو سوچتی ہوں کہ رہنے دو، اس کی جگہ سبزی خرید لوں تاکہ گھر کا کھانا تو پورا ہوسکے۔ مہنگائی نے اس قدر متاثر کیا ہے کہ دیگر ضروریات کو چھوڑ کر صرف گھر کے کھانے پینے کی اشیا پوری کرنے کی کوشش میں رہتی ہوں۔‘‘
یہ کہنا ہے کہ راولپنڈی کی بزرگ خاتون جہاں آرا بیگم کا، جو اپنے تین بیٹوں کے ساتھ مشترکہ گھر میں رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’’میرے تین بیٹے کماتے ہیں اور ہم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، تو ہمارا گزر کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے، اگر ہم علیحدہ رہیں تو گھر کا نظام چلانا ممکن نہیں ہے۔ بچوں کے اسکول کی گاڑی کا کرایہ، اسکول اور قرآن پڑھانے والے قاری کی فیس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ٹماٹر آج 140 روپے اور پیاز 100 روپے کلو مل رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جو کماتے ہیں، وہ سب گھر کے اخراجات میں صرف ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں جولائی میں مہنگائی کی شرح میں 24.9 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی میں یہ اضافہ گزشتہ 14 سال میں سب سے زیادہ ہے۔
مہنگائی کی اس لہر میں کھانے پینے کی اشیا سب سے زیادہ مہنگی ہوئی ہیں۔ رواں سال جون کے مقابلے میں جولائی میں مہنگائی کی شرح میں 4.35 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کے مطابق معاشی طور پر مشکلات کی شکار حکومت مہنگائی کی اس لہر کو قابو میں لانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کے آنے کے بعد سے مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اپریل میں مہنگائی کی شرح 13.37 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو مئی میں 13.76 فی صد تک بڑھ گئی جب کہ جون میں یہ شرح 21.32 فی صد تک پہنچ چکی تھی۔
معاشی ماہرین خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ مہنگائی میں اضافے کا یہ رجحان آئندہ مہینوں میں بھی برقرار رہے گا، جس کی وجہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قدر میں اضافہ بھی ہو گا۔ پاکستان توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے، جو ڈالر کی قدر میں اضافے کے سبب آئندہ مہینوں میں مزید مہنگی ہوں گی۔
وزارتِ خزانہ کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ مختلف اشیا کے نرخ بڑھے ہیں جب میں سبزیاں 25 فی صد، دال چنا 14 فی صد، پیاز 14 فی صد، گندم 10 فی صد، چائے نو فی صد، انڈے آٹھ فی صد، کھانا بنانے کا تیل میں آٹھ فی صد مہنگا ہوا ہے۔
دوسری جانب بجلی کی قیمت میں 39 فی صد اور تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں سات فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اگر گزشتہ سال سے موازنہ کیا جائے تو اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پیاز کی قیمت 89 فی صد بڑھی، خوردنی تیل کی قیمت میں 73 فی صد اضافہ ہوا، دالیں 67 فی صد، مرغی کی قیمت میں 59 فی صد، گندم کی قیمت میں 45 فی صد اور دودھ کی قیمت میں 24 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 94 فی صد اور بجلی کی قیمت میں 86 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
صارفین کے حقوق کی تنظیم کے صدر محسن بھٹی کہتے ہیں کہ مہنگائی کے سرکاری اعدا و شمار زمینی حقائق سے تقابل نہیں رکھتے۔ اگر مارکیٹ کا جائزہ لیا جائے تو کھانے پینے کی اشیا میں 40 فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آمدن میں اضافہ نہ ہونے اور مہنگائی میں ہوشربا اضافے نے کھانے پینے کی اشیا کو بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور کر دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اتوار کو حکومت نے جو ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کیا ہے، اس کے اشیا خور و نوش کی قیمتوں پر مزید اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ ملک میں زیادہ تر ٹرانسپورٹیشن ڈیزل کے ذریعے ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محسن بھٹی کے بقول عالمی کساد بازاری کے علاوہ قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ حکومت کی عمل داری کا نہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے اور ملک میں کھانے پینے کی 90 فی صد اشیا مقامی طور پر پیدا ہوتی ہیں، جن کی قیمتوں پر ڈالر کے بڑھنے کے اثرات نہیں پڑتے لیکن حکومت کی عمل داری نہ ہونے کے سبب مقامی طور پر پیدا ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ویسے ہی دیکھا گیا ہے جیسا درآمدی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت مہنگائی پر قابو پاے کے بیانات تو دیتی ہے لیکن اس کے لیے کوئی عملی اقدام یا نظام دکھائی نہیں دیتا۔
معاشی مشکلات کے شکار پاکستان کو زرِ مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کا سامنا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے اقدامات کیے ہیں اور اتوار کی رات وزارتِ خزانہ نے اعلان کیا کہ جولائی کے مہینے میں ملکی درآمدات میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی۔
گزشتہ ماہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کا معاہدہ کیا تھا، جس سے حکومت کو امید ہے کہ دیگر بیرونی مالی اعانت کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔