پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کی بحالی متوقع

(فائل فوٹو)

کابل میں علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس برائے افغانستان رواں ہفتے ہو رہی ہے، جس میں شرکت کے لیے پاکستان کو دعوت دی گئی ہے۔

کابل میں علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس برائے افغانستان رواں ہفتے ہو رہی ہے، جس میں شرکت کے لیے پاکستان کو دعوت دی گئی ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کانفرنس میں شرکت سے متعلق دعوت پر غور کیا جا رہا ہے۔

اس پیش رفت کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت دوبارہ بحال ہو سکے گی۔

اگر پاکستان کی طرف سے اس علاقائی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا تو ممکنہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز کابل جائیں گے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اس کانفرنس کے موقع پر پاکستانی اور افغان عہدیداروں کے درمیان دوطرفہ اُمور پر بات چیت ہو سکے گی۔

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اس کی ابتدا گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والے مہلک حملوں کے بعد کابل انتظامیہ کی طرف سے پاکستان پر لگائے جانے والے وہ الزامات تھے جن میں کہا گیا کہ اب بھی پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں جو افغانستان کے لیے خطرہ ہیں۔

پاکستان کی طرف سے افغانستان کی حکومت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستانی حکومت ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے اور اپنی سرزمینی کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نا ہونے دینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔

لیکن دوطرفہ کشیدگی میں مزید شدت اُس وقت آئی جب سرحد کے دونوں طرف فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے میں دونوں جانب جانی نقصان ہوا۔

گزشتہ ہفتے ہی پاکستان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اُس نے افغانستان میں اپنے سفارتی عملے کی سلامتی سے متعلق خدشات سے افغان حکومت کو آگاہ کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق کابل میں تعینات پاکستانی عملے کے وہ افراد جو سفارت خانے کی عمارت کے باہر رہائشی علاقوں میں مقیم تھے وہ سلامتی کی خدشات کے باعث اب سفارت خانے کی عمارت میں منتقل ہو گئے ہیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ ہفتوں میں پاکستان مخالف احتجاجی مظاہروں کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی اور اس امن عمل کے سلسلے کی دوسری ملاقات بھی جولائی کے اواخر میں پاکستان میں ہی ہونا تھی۔

لیکن طالبان کے امیر ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد یہ ملاقات موخر کر دی گئی اور طالبان نے ملا اختر منصور کو اپنا نیا امیر مقرر کیا۔

نئے امیر کے تقرر کے ساتھ ہی افغان طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں اور افغانستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔