پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کے مقام پر سرحد بند ہونے کی وجہ سے دو طرفہ آمدورفت کے لیے سب سے اہم زمینی راستے طورخم میں غیرمعمولی رش دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس صورتحال میں ایک بار پھر خاص طور پر تجارتی سامان لانے اور لے جانے والے ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات سرحد کے آرپار نقل و حرکت کرنے والوں کی پریشانیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خیبر ایجنسی کی ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر اللہ آفریدی نے اتوار کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحد پر کسی بھی طرح کی کشیدگی ٹرانسپورٹرز کے لیے شدید مالی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
"ابھی جو چمن میں واقعہ ہوا اس سے مسئلہ پھر خراب ہو گیا ہے اور روز خراب تر ہوتا جا رہا ہے لیکن زیادہ نقصان ہمارا ہوتا ہے ہزاروں گاڑیاں ادھر بھی اور سرحد پار بھی کھڑی ہو جاتی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار کرنے کے لیے جانچ پڑتال کے عمل میں بھی رش کی وجہ سے مزید تاخیر ہو رہی ہے جو کہ ٹرانسپورٹرز کو پہلے سے درپیش مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
"کلیئرنگ میں ایک گاڑی کی چیکنگ میں 15 منٹ لگتے ہیں اس طرح ایک گھنٹے میں چار گاڑیاں ہی کلیئر ہوتی ہیں۔ ہماری طرف سے اگر تین ساڑھے تین سو گاڑیاں افغانستان جاتی ہیں تو وہاں سے ایک ڈیڑھ سو گاڑیاں آتی ہیں رش زیادہ ہو گیا ہے اور یہ گاڑیاں پھر کھڑی رہتی ہیں جن میں ایسا سامان بھی ہوتا ہے جو خراب ہو جائے تو نقصان اور بڑھ جاتا ہے۔"
شاکر آفریدی نے کہا کہ وہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کریں تاکہ دونوں جانب کے عوام کی مشکلات بھی کم ہو سکیں۔
حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث سرحد متعدد بار بندش کا شکار ہو چکی ہے لیکن چمن میں پیش آنے والے واقعے کے بعد صرف اس ہی سرحدی گزرگاہ کو بند کیا گیا جب کہ دیگر راستوں پر آمدورفت جاری ہے۔