پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ اُن کا ملک افغانستان میں مصالحت کے عمل کا ہمیشہ حامی رہا ہے۔ یہ بیان اُن خبروں کی اشاعت کے بعد سامنے آیا جن میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان نے افغانستان کی حکومت سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
خبروں میں یہ بھی کہا گیا کہ افغان طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے میں پاکستانی فوج نے کردار ادا کیا۔ جب کہ اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور افغان صدر کے درمیان بھی بات چیت ہوئی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں مذاکرات میں پاکستانی کردار پر تو کوئی تبصرہ یا وضاحت نہیں کی گئی۔
البتہ فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طویل المدت امن کے لیے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مصالحت اور استحکام کا معاملہ افغانستان سے متعلق ہونے والی بات چیت میں ہمیشہ زیر بحث آتا ہے۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ مصالحت کی حمایت کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ عمل شفاف اور افغانوں کی زیر قیادت ہونا چاہیئے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے مذاکرات کو کامیاب بنانے سے متعلق ذمہ داری دونوں متعلقہ فریقوں پر عائد ہوتی ہے، تاہم فوج کے ترجمان کے مطابق پاکستان اپنی تمام تر نیک نیتی کے ساتھ اس طرح کے عمل کی حمایت کرے گا کیوں کہ ترجمان کے بقول خطے میں امن کے لیے افغانستان میں امن اہم ہے۔
بیان میں اس اُمید کا اظہار بھی کیا گیا کہ تمام فریقین ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کے اس عمل سے توجہ ہٹانے والوں کو کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان اس طرح کے مذاکرات کو شروع کرانے میں تو کردار ادا کر سکتا ہے لیکن اس میں حقیقی پیش رفت دونوں فریقوں کو ہی کرنا ہو گی۔
اُدھر افغان طالبان کے ترجمان نے ان خبروں کی نفی کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان جمعرات کو بات چیت ہونے جا رہی ہے۔
جب کہ خبر رساں ایجنسی ’رائیٹرز‘ نے امریکی عہدیدار کے حوالے سے بھی ایسے مذاکرات کی تردید کی ہے۔
اس سے قبل طالبان سے مذاکرات کے لیے ماضی میں کی گئی کوششیں سود مند ثابت نہیں ہو سکی تھیں لیکن نئے افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کے بعد تازہ رابطوں میں پیش رفت کی توقع کی جا رہی ہے۔
افغانستان سے امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلاء کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں اگر افغان طالبان کو مذاکرات پر لانے کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی۔
ماضی میں پاکستان کے طالبان سے تعلق کی بنا پر اسلام آباد اور کابل کے تعلقات بداعتمادی کا شکار رہے لیکن صدر اشرف غنی جو گزشتہ سال ہی اقتدار میں آئے، اُن کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
پاکستان افغانستان میں مصالحت کے لیے 2012ء سے اپنے ہاں قید 40 سے زائد افغان طالبان قیدیوں کو مرحلہ وار رہا بھی کر چکا ہے، جن میں افغانستان میں طالبان کے دور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل تھے اور اُن میں ملا عبدالغنی برادر نمایاں ہیں جو افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب تھے۔
اسی سلسلے میں گزشتہ برسوں کے دوران افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔