پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانچ سال قبل ایک نوجوان شاہ زیب خان کے قتل کے ملزمان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دینے اور مقدمے میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات ختم کرنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سماجی کارکنوں نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے۔
دس درخواست گزاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے مقدمے سے انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کو ختم کیے جانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ قتل کے اس واقعے سے لوگ خوف و ہراس کا شکار ہوئے۔
درخواست گزاروں میں شامل معروف سماجی کارکن جبران ناصر نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 10 درخواست گزاروں میں سے سات کا تعلق کراچی کے علاقے ڈیفنس سے ہے جہاں قتل کا یہ واقعہ رونما ہوا تھا اور بطور شہری ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر لوگ ہراساں ہوتے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کریں۔
"درخواست میں مؤقف ہے کہ جو دہشت گردی ہے وہ معاشرے کے خلاف جرم ہوتا ہے کوئی ذاتی تنازع نہیں ہوتا۔۔۔ جس طریقے سے اپیل کے اندر پراسیکیوٹر جنرل جو کہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے، نے قبول کر لیا کہ ہاں جی دہشت گردی کا الزام ہٹا دیجیے تو انھوں نے اپنی اخلاقی و قانونی فرض ادا نہیں کیا۔ جس طریقے سے سندھ ہائی کورٹ نے جو اسی کیس میں 2013ء میں ایک ڈویژن بینچ کی طرف سے دیے گئے فیصلے کو جس میں کہا گیا تھا کہ ہاں یہ قتل واقعی دہشت گردی کا عمل تھا اس پر بھی غور نہیں کیا۔"
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایسے بہت سے فیصلے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے جن حالات میں قتل ہوا ان کو بھی زیرِ غور لایا جانا ضروری ہے۔
"سپریم کورٹ کے کئی فیصلے ہیں کہ آپ قتل کی صرف وجہ نہیں دیکھتے۔ ہو سکتا ہے یہ آپس کی لڑآئی ہو۔ آپ وہ حالات بھی دیکھتے ہیں اور وہ طریقہ بھی جو اپنایا جاتا ہے مارنے کے لیے اور اس سے خوف و ہراس پھیلا کہ نہیں۔ تو جو یہ ایک (سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے سے) مثال قائم ہوئی ہے یہ مستقبل میں بہت نقصان دے گی اگر اسے چیلنج نہ کیا گیا۔"
28 نومبر کو سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب مقدمہ قتل کے ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت جب کہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو سنائی گئی سزاؤں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمہ کو از سرِ نو سیشن عدالت میں چلانے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی ملزمان کے خلاف عائد انسدادِ دہشت گردی کی دفعات ختم کر دی تھیں۔
25 دسمبر 2012ء کو ہونے والے اس قتل میں مقتول کے لواحقین ملزمان کو معاف کر چکے ہیں لیکن انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں صلح کی گنجائش نہیں ہوتی لہذا ملزمان جیل میں ہی تھے۔
سندھ ہائی کورٹ میں ملزمان کے وکلا نے موقف اختیار کیا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ملزمان کو سزا سنائی جب کہ یہ ایک ذاتی جھگڑا تھا جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
مقدمے کے تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔