افغان سرحد کے قریب سیر کرنے والے 16 نوجوان اغوا

مغویوں کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں (فائل فوٹو)

خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے مغویوں کی جلد اور بحفاظت بازیابی کے لیے مقامی قبائلی رہنماﺅں کے ذریعے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

صوبائی دارالحکومت سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبرایجنسی کی تحصیل لنڈی کوتل سے منگل کو نامعلوم مسلح افراد نے ان 17 لڑکوں کو اغوا کر لیا جو سیر کرنے کے لیے اس سرحدی علاقے میں آئے تھے۔

پولٹیکل انتظامیہ کے مطابق یہ واقعہ سرحدی گاؤں عادل خٹ میں پیش آیا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ اغوا کیے جانے والے لڑکوں میں سے ایک اغواکاروں کے قبضے سے بحفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس لڑکے نے انتظامی عہدیداروں کو بتایا کہ اغوا کاروں کی تعداد 10 تھی اور وہ اسلحہ سے لیس تھے۔

خیبر ایجنسی کی انتظامیہ نے مغویوں کی جلد اور بحفاظت بازیابی کے لیے مقامی قبائلی رہنماﺅں کے ذریعے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سرحد پار ملحقہ علاقے میں افغان حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی بنا پر اکثر ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جب میں دہشت گرد پاکستانی علاقے سے نہ صرف عام لوگوں بلکہ حکومت کے وفادار قبائلی رہنماﺅں اور سرکاری اہلکاروں کو بھی اغوا کر کے سرحد پار کر جاتے رہے ہیں۔

ادھر خیبر پختونخوا کے دور افتادہ پہاڑی ضلع چترال میں مبینہ دہشت گردوں نے دریا پر قائم ایک پل کو بارودی مواد سے تباہ کر دیا۔

چترال کے ضلعی ناظم حاجی مغفرت شاہ نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پل کے تباہ ہونے سے افغانستان کی مشہور سرحدی پٹی داخان کے قریبی علاقے رچ کی لگ بھگ 20ہزار آبادی کا رابطہ چترال کے دیگر علاقوں سے منقطع ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا ان علاقوں سے زمینی رابطہ بحال کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔