چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل اور خاور فرید مانیکا تنازعہ میں ڈی پی او کے تبادلے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کو طلب کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈی پی او رضوان گوندل کی تبدیلی سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے، پانچ دن سے قوم اس کے پیچھے ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات بار بار کہہ رہا ہوں کہ پولیس کو آزاد و خود مختار ہونا چاہیے۔ ہم پولیس کو سیاسی دباوٴ سے نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن پولیس سیاسی دباوٴ سے نکلنے کی کوششوں کو خراب کر رہی ہے۔ آپ آزاد ادارہ نہیں بننا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ ’’کس کے لیے رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا۔ اگر آپ نے وزیر اعلیٰ کے حکم پر رضوان گوندل کا تبادلہ کیا ہے تو یہ غیر قانونی ٹرانسفر ہے۔ تبادلے کا حکم رات کے ایک بجے جاری کیا گیا۔ رات کے ایک بجے تبادلہ کا حکم جاری کرنے کی کیا ضرورت پڑگئی تھی؟ کیا اس رات صبح نہیں ہونا تھی؟‘‘
آئی جی پنجاب کلیم امام نے کہا کہ ’’میں کبھی کسی سیاستدان کے کہنے پر کام نہیں کرتا۔ 31 سال سے پولیس میں ایمانداری سے خدمات سرانجام دیں۔ میں نے اس سے پہلے چار مرتبہ فورسز کو کمانڈ کیا ہے۔ میں قسم کھا سکتا ہوں سیاسی دباوٴ میں نہیں تھا۔ کسی نے مجھے ڈی پی او کے تبادلے کے لیے نہیں کہا۔ ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ انتظامی حکم تھا۔ ایک خاتون کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ ڈی پی او مجھ سے پوچھے بغیر وزیر اعلیٰ کے پاس گئے‘‘۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کلیم امام کی سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو ہدایات نہ دیں۔ آپ کی طرف سے بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلا کر آپ کا تبادلہ کرواتے ہیں۔ غلط بیانی سے کام لیں گے تو آئی جی پنجاب کے طور پر واپس نہیں جائیں گے۔
چیف جسٹس کے استفسار پر رضوان گوندل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے دوست احسن جمیل گجر سے بطور ڈی پی او ڈیرے پر جانے سے انکار کیا، خاور مانیکا کے ڈیرے سے کال آئی کہ مجھے کہا گیا کہ آپ کو پیغام بھیجا گیا۔ لیکن آپ نے عمل نہیں کیا،جن لوگوں نے خاتون کو روکا انہیں اٹھا لیں گے۔
رضوان گوندل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پی ایس حیدر نے 24 اگست کو مجھے اور آر پی او بلایا، وزیر اعلیٰ نے رات 10 بجے بلایا تھا، وزیر اعلیٰ آفس گئے تو چار پانچ منٹ بعد وزیر اعلی خود آئے، میں نے ان کو تفصیل بتائی۔
رضوان گوندل کے بیان پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے تبادلے کی ہدایات وزیر اعلیٰ نے دیں۔ وزیر اعلیٰ کس قانون کے تحت تبادلہ کا کہہ سکتا ہے؟ جس پر رضوان گوندل نے کہا کہ پی ایس او کے مطابق تبادلے کا حکم وزیر اعلیٰ نے دیا۔
آر پی او ساہیوال نے بتایا کہ خاور مانیکا کو ناکے پر روکا لیکن وہ نہیں رکے۔ خاور مانیکا نے پولیس والوں کو برا بھلا کہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کڑیاں مل رہی ہیں کہ سی ایم کے کہنے پر تبادلہ کیا گیا۔
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ پنجاب پر 62 ون ایف لگانے کا عندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کس کس پر لاگو ہوسکتا ہے؟ مخدوم صاحب سے معاونت لیں گے کہ 62 (1) ایف وزیر اعلیٰ پر لگتا ہے یا نہیں، ممکن ہے اور کسی وزیر اعلیٰ کے کام آجائے۔
عدالت نے خاور فرید مانیکا اور احسن جمیل گجر کو فوری طور پر عدالت طلب کیا۔ تاہم، عدالت کو بتایا گیا کہ احسن جمیل گجر سے رابطہ نہیں ہو رہا اور خاور فرید مانیکا کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی 10 سالہ بیٹی کو لینے جانا ہے۔ لہذا وہ آج حاضر ہونے سے قاصر ہیں۔
عدالت نے حکم دیا کہ آر پی او ساہیوال اور سابق ڈی پی او پاکپتن کل تک اپنا تحریری بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں جبکہ آئی ایس آئی کے کرنل طارق، احسن جمیل گجر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے پی ایس اور سی ایس او سمیت ڈی آئی جی ہیڈ کواٹر شہزادہ سلطان پیر کو عدالت میں حاضر ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو کہا کہ احسن جمیل گجر کی حاضری کو آئی جی صاحب آپ نے یقینی بنانا ہے۔ احسن جمیل گجر کو پیار سے لائیے گا۔ اگر وہ پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر عدالت اگلا لائحہ عمل اختیار کریگی۔
کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
پاکپتن میں خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو ناکہ پر روکے جانے کے بعد ڈی پی او رضوان گوندل کو ان سے ڈیرہ پر جا کر معافی مانگنے کے لیے کہا گیا جس پر انہوں نے انکار کیا اور انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گذشتہ روز اس کیس میں ازخود نوٹس لیا تھا۔