رسائی کے لنکس

عمران خان اور خوشامدی ٹولہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عمران خان اب ایک ایسی پوزیشن میں آ گئے ہیں جہاں وہ لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی صورت میں خاصی مشکل سے دو چار ہو جائیں گے۔

عمران خان جب سے وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے ہیں، ٹیلی ویژن اینکرز، کالم نگاروں، مبصرین اور تجزیہ کاروں کی طرف سے مشوروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کا تشخص کچھ اس انداز کا بن گیا ہے جو تبدیلی کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ عمران خان کے حامی جہاں اُن کی قائدانہ صلاحیت اور نظریات پر پورا یقین کر رہے ہیں، اُن کے مخالفین بھی اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ شدید مخالفت کے باوجود وہ اُن سے مختلف قسم کی توقعات رکھتے ہیں۔

یوں عمران خان اب ایک ایسی پوزیشن میں آ گئے ہیں جہاں وہ لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی صورت میں خاصی مشکل سے دو چار ہو جائیں گے۔

اگر دنیا بھر میں مختلف ممالک کے راہنماؤں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جہاں اُن ملکوں کے عوام نے اُن سے غیر معمولی اُمیدیں باندھ لی تھیں۔ تاہم ایسے راہنماؤں کی تعداد مختصر ہے جو حقیقت میں عوام کی توقعات پر اترتے ہوئے مُثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجے میں اُن کی شخصیت اتنی بڑی ہو گئی کہ دنیا بھر میں اُن کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے اور بڑے بڑے لیڈر اُن کی صلاحتیوں کے گرویدہ گئے۔ ایسے غیر معمولی راہنماؤں میں حالیہ دور میں سب سے نمایاں نام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کا رہا۔

یوں عمران خان کیلئے مشوروں کی جو بھرمار دیکھنے میں آ رہی ہے، یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے معاون نائب صدر معید یوسف کا کہنا ہے کہ وہ ان مشوروں میں ایک مشورے کی کمی شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں گہرائی تک سرایت کر جانے والی خوشامد سے کیسے بچا جائے۔ معید یوسف کہتے ہیں کہ خوشامد پاکستانی سیاست میں ایک ایسے بیکٹیریا کی مانند ہے جو لیڈروں کے دماغ کو کھا کر اسے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یوں وہ لیڈر خوشامد سننے کا عادی ہو جاتا ہے۔

معید یوسف کا کہنا ہے کہ بے نظیر بھٹو ہوں یا پرویز مشرف یا پھر نواز شریف، ان میں سے ہر ایک لیڈر کو خوشامدی ٹولے نے اس انداز میں گھیرے میں لے رکھا تھا کہ وہ حقیقت پسندانہ مشوروں سے دور ہو کر خوشامد کے عادی ہو گئے۔ یوں عمران خان بھلے ہی اپنے پیش رو لیڈروں سے مختلف ہوں، یہ بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ وہ بھی خوشامد کے دباؤ کا شکار نہیں ہوں گے اور اگر اُنہیں اس سے نکلنا ہے تو اُنہیں شروع ہی سے اس بارے میں کوئی قدم اُٹھانا ہو گا۔

تاہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اقدام اُٹھا سکتے ہیں۔ معید یوسف عمران خان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی کابینہ کے وزرا کو شروع میں ہی باور کرائیں کہ وہ اُن کی شخصیت کی بے جا تعریفیں نہیں کریں گے اور اپنے قریبی رفقا کی ٹیم سے کے حصار باہر نکل کر مسلسل ایسے ماہرین، تجزیہ کاروں، صاحب الرائے صحافیوں اور معاشی ماہرین سے مشورہ کرتے رہیں جو عوامی آراء کو تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

معروف تجزیہ کار حسن نثار کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اپنے پہلے 100 دنوں کیلئے جس مشکل ایجنڈے کا اعلان کر رکھا ہے، مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد کے چند روز میں کئی ایسے اقدامات اُٹھا لئے گئے ہیں جو بقول اُن کے صحیح سمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں وزیر اعظم ھاؤس میں رہائش اختیار کرنے سے اجتناب، صوابدیدی فنڈز کے خاتمے، سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کرانے پر پابندی اور وزیراعظم کے خصوصی طیارے کو استعمال نہ کرنے جیسے اقدامات کا حوالہ دیتے ہیں۔ تاہم حسن نگار کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم نے اقتدار میں آنے سے پہلے مناسب انداز میں ہوم ورک نہیں کیا جو اُنہیں بہت پہلے کر لینا چاہئیے تھا۔ لہذا اب اقتدار میں آنے کے بعد غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے اور پاکستانی قوم نئے نئے تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

تاہم گزشتہ چند روز میں کچھ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن سے عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ جب حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے اُن پر وزیر اعظم ھاؤس سے بنی گالا آنے جانے کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے پر اعتراض کیا تو حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی اس منطق سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ گوگل سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق ہیلی کاپٹر کا فی منٹ خرچہ صرف 55 روپے بنتا ہے جو ہر طرح کے دیگر ذرائع آمدورفت سے سستا ہے۔ اسی طرح پاک پٹن میں عمران خان کی اہلیہ کے سابق شوہر خاور مانیکا کی علاقے کے ڈی پی او کے ساتھ تلخ کلامی اور اُس کے نتیجے میں ڈی پی او کی طرف سے اُن سے معافی مانگنے سے انکار پر تادیبی کارروائی نے بھی عمران خان حکومت پر کئی سوال اُٹھا دئے ہیں۔

تاہم معید یوسف کے مطابق عمران خان کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے منصب کو اپنا واحد اور آخری موقع تصور کرتے ہوئے اپنے اُس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ تمام فیصلے جلد از جلد کریں جن کا اُنہوں نے قوم سے وعدہ کر رکھا ہے اور اس کیلئے خوشامدی ٹولے سے بچنا انتہائی ضروری ہو گا جو اُنہیں حقیقت سے دور کر دیں گے۔

XS
SM
MD
LG