مشتبہ طالبان قیدیوں کی خصوصی مراکز میں منتقلی

زیر حراست تمام مشتبہ شدت پسندوں کو سوات اور خیبر پختون خواہ کے دیگر اضلاع میں فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا مگر ان پر فوری طور پرعدالتوں میں مقدمات نہیں چلائے جا سکے کیونکہ فوجی حکام کو خدشہ تھا کہ قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھا کر ان میں سے اکثر بشمول عسکریت پسندوں کے اہم رہنما رہا ہو جاتے۔

پاکستان میں صوبائی حکام نے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران گرفتار کیے گئے سینکڑوں مشتبہ جنگجوؤں کو خصوصی طور پر کھولے گئے تین حراستی مراکز میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں مفصل تفتیش کے بعد اُن پر باضابطہ مقدمات چلانے یا اس کے بغیر ہی انھیں رہا کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

شمال مغربی خیبر پختون خواہ صوبے کی حکومت کی طرف سے بدھ کی شب جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ فوجی حکام سے مشاورت کے بعد یہ حراستی مراکز لکی مروت، کوہاٹ اور مالا کنڈ ڈویژن میں قائم کیے گئے ہیں۔

تفتیشی عمل کی نگرانی کے لیے متعلقہ کمشنر اور فوج کے ایک کرنل پر مشتمل ٹیم ہر مرکز پر تعینات کی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں 1,800 زیرحراست مشتبہ شدت پسندوں کو ان میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

(فائل فوٹو)


زیر حراست تمام مشتبہ شدت پسندوں کو سوات اور خیبر پختون خواہ کے دیگر اضلاع میں فوجی آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا مگر ان پر فوری طور پرعدالتوں میں مقدمات نہیں چلائے جا سکے کیونکہ فوجی حکام کو خدشہ تھا کہ قوانین میں سقم کا فائدہ اٹھا کر ان میں سے اکثر بشمول عسکریت پسندوں کے اہم رہنما رہا ہو جاتے۔

لیکن حقوق انسانی کی تنظیمیں بغیر قانونی کارروائی کے اتنی بڑی تعداد میں مشتبہ افراد کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنے پر حکام پر تنقید کرتی آئی ہیں۔

بظاہر اسی تنقید کے ردِعمل میں اور کامیاب عدالتی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں بعض تبدیلیاں بھی کی گئیں۔

صوبائی حکومت زیر حراست افراد کو پہلے ہی تین درجوں میں تقسیم کر چکی ہے۔

ان میں درجہ اے کی فہرست والے مشتبہ جنگجوؤں کے خلاف باضابطہ مقدمات درج کرکے عدالتی کارروائی شروع کی جا چکی ہے جبکہ درجہ بی اور سی میں رکھے گئے افراد کے مستقبل کا فیصلہ عارضی حراستی مراکز میں تفتیش کا عمل مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا۔

سرکاری ذرائع نے کا کہنا ہے کہ درجہ سی میں شامل کیے گئے مشتبہ افراد کو ضمانت پر رہا کیے جانے جب کہ درجہ بی والوں کو عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔