بنگلہ دیش میں حکام اور رضاکاروں نے بتایا ہے کہ شدید بارشوں کے بعد دریائوں میں طغیانی آنے سے ملک کا وسیع علاقہ زیرآب آگیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ 10 لاکھ سے زائد متاثرین گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
منگل کو ان بپھرے ہوئے دریاؤں میں کم از کم دو درجن مقامات پر پانی کناروں سے بہہ کر قریبی آبادیوں کے نشیبی علاقوں میں بھر گیا، جس سے کئی افراد کے ڈوبنے کی اطلاع ہے۔
آبی گزرگاہوں کے انتظامی ادارے کے ایگزیکٹو انجنیئر نے بتایا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بنگلہ دیش کے شمالی، شمال مشرقی اور وسطی علاقے کے متعدد مقامات زیر آب آچکے ہیں۔
سیلابی صورتحال کا آغاز گزشتہ ماہ ہوا، جو بڑھتے بڑھتے شدت اختیار کرگیا۔ اس کی زد میں آکر وسیع علاقے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش میں سیلابی صورتحال کی پیش گوئی کرنے والے مرکز نے اطلاع دی ہے کہ ملک کے شمال مغربی اور وسطی میں صورت حال مزید بگڑنے کے خدشات ہیں۔ ادارے کے ایک اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ اس عشرے کا بدترین سیلاب ہے۔
اس کا آغاز شدید بارشوں سے ہوا، جس کے بعد سیلابی پانی نے تیزی کے ساتھ نشیبی علاقوں کی جانب رخ کیا۔ دریائوں کی سطح اونچی ہوتی گئی اور پانی کناروں کو کاٹتے ہوئے قریبی نشیبی علاقوں کی طرف بہنے لگا۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے نے اطلاع دی ہے کہ متاثرین کی فوری امداد اور کھانے پینے کی اشیا کی تقسیم کا کام شروع کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ادارے نے 975 مراکز قائم کیے ہیں جب کہ 175 طبی ٹیمیں روانہ کردی گئی ہیں۔
آئندہ چند روز کے دوران مون سون کی شدید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
خطے میں مون سون کا موسم جون سے ستمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران بنگلہ دیش کے 230 دریاؤں میں طغیانی آتی ہے، جن میں سے 53 دریا ایسے ہیں جو بھارت اور بنگلہ دیش گزرتے ہیں۔