پی ٹی آئی کا اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان، 'بہتر ہے وزیرِ اعظم مذاکرات کی دعوت دیں'

فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے تمام اسمبلیوں سے استعفے کے اعلان نے قومی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومت ہے جہاں کی اپوزیشن نے عمران خان کی اس سیاسی حکمتِ عملی کا جواب تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ لیے ہیں۔

اس حوالے سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔

ایک جانب پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے حلیف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کر رکھا ہے تو وہیں خیبر پختونخوا میں بھی حزبِ اختلاف نے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضٰی نے حمزہ شہباز شریف سے منگل کو ملاقات کی ہے جس میں وزیرِ اعلٰی پنجاب سے اعتماد کا ووٹ لینے اور دیگر سیاسی معاملات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ہے۔

ادھر سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کی بھی آج سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات متوقع ہے۔

دریں اثنا رہنما تحریکِ انصاف فواد چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کی زیرِ صدارت پارٹی اجلاس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں سے مرحلہ وار مستعفی ہونے کا آغاز کر دیا جائے گا۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال ملک میں مزید عدم استحکام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لہذٰا سیاسی جماعتوں کو مل کر کوئی حل تلاش کرنا ہو گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں اگر مسلم لیگ (ق) اور تحریکِ انصاف ساتھ رہیں تو پھر وزیرِ اعلٰی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر گورنر پنجاب چوہدری پرویز الہٰی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہتے ہیں تو وہ بھی حاصل کرنا پرویز الہٰی کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔

'اسمبلی تحلیل ہوئی تو معاملہ عدالت میں بھی جا سکتا ہے'

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پارٹی قیادت کی مرضی کے برخلاف کسی بھی رُکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔ لہذٰا جب تک مسلم لیگ (ق) کے اندر بغاوت نہیں ہوتی اس وقت تک تحریکِ اعتماد منظور ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ 1993 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کر کے نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج دیا، لیکن چند ہی روز بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کر دی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ صدر نے اسمبلی توڑنے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا تھا۔ لہذٰا نواز شریف کی حکومت بحال کر دی گئی تھی۔ لہذٰا یہ معاملہ بھی عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں چوہدری پرویز الہٰی کے لیے بھی بغیر کسی جواز کے اسمبلی تحلیل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں صورتِ حال ویسے ہی دلچسپ ہے کیوں کہ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان عددی فرق بہت کم ہے۔

پنجاب اسمبلی میں 371 اراکین اسمبلی ہیں جن میں سے 178 کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہےجب کہ 10 اراکین مسلم لیگ (ق) کے ہیں۔ لہذٰا حکمراں اتحاد کے اراکین کی تعداد 188 ہے۔

'تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان کم ہے'

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کی تعداد 168 ہے جب کہ اس کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کی سات نشستیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو چار آزاد اراکین اور راہِ حق پارٹی کے ایک رُکن اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یوں مجموعی طور پر اپوزیشن اتحاد کے 179 اراکین اسمبلی ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن اتحاد کو پنجاب اسمبلی میں 186 اراکین کی حمایت ثابت کرنا ضروری ہے۔

سلمان غنی کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر پی ٹی آئی اسمبلیوں سے نکل آتی ہے تو اسے انتخابات کی تاریخ مل جائے گی۔ اُن کے بقول اُنہیں آئندہ چند ہفتوں میں ایسی نوبت آتی دکھائی نہیں دے رہی۔

سلمان غنی کے بقول عمران خان جب وزیرِ اعظم تھے تو قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو رد کرتے تھے، لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے اور اب وہ قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور حکمراں اتحاد اس پر راضی نہیں ہے۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس پنجاب کی صورتِ حال پر کنٹرول کے لیے زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ کیوں کہ چوہدری پرویز الہٰی کو وزارتِ اعلٰی سے ہٹانا آسان نہیں ہے۔

اُن کے بقول وزیرِ اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو براہِ راست مذاکرات کی دعوت دیں اور دونوں جماعتیں مل بیٹھ کر فیصلہ کریں کے انتخابات کب کرانے ہیں۔

دریں اثنا وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک کے ساتھ ملاقات کی ہے۔

مسلم لیگ (ق) کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق ملاقات میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل سمیت دیگر اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔