کلبھوشن کے حوالے سے خصوصی قانون سازی، حزب اختلاف کا احتجاج

کلبھوشن کی اہل خانہ سے ملاقات (فائل)

حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان میں حکومت کی جانب سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے خصوصی قانون سازی پر احتجاج کر رہی ہیں۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو جواز بنا کر آرڈیننس کا اجرا قومی سلامتی کا معاملہ ہے جسے عوام اور پارلیمنٹ سے خفیہ رکھا گیا۔

صدر عارف علوی نے رواں سال مئی میں حکومت کی سفارش پر ایک خصوصی صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت بھارتی جاسوس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

حکومتی وزرا کا دعویٰ ہے کہ صدارتی آرڈیننس جاری کرنا ایک مجبوری تھی، کیونکہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر نظرثانی کی جائے۔

وزیر قانون سینیٹر فروغ نسیم کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کی طرف سے کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری نہ کیا جاتا تو بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے پاکستان پر پابندیاں لگوا سکتا تھا۔ ان کے بقول، حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کرکے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیے۔

پاکستان کی فوجی عدالت نے جاسوسی، دہشت گردی اور تخریب کاری کے الزامات کے تحت اپریل 2017 میں کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

بھارت کی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے گزشتہ سال جولائی میں پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی فراہم کرنے کے ساتھ پاکستان کی فوجی عدالت کی طرف سے انہیں دی گئی سزائے موت پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا۔


اپوزیشن کا آرڈیننس پر اعتراض کیوں؟

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ہفتے کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کلبوشن یادیو کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کے اجرا پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ صدارتی آرڈیننس مئی 2020ء میں جاری کیا گیا اور قانون کے مطابق اس آرڈیننس کو جون 2020 میں شروع ہونے والے بجٹ اجلاس میں پیش کرنا ضروری تھا۔ لیکن، حکومت نے اس آرڈیننس پر ایک پُراسرار خاموشی کیوں اختیار کی؟

بلاول بھٹو نے یہ سوال بھی کیا کہ صدارتی آرڈیننس جاری ہونے کے باوجود کلبھوشن یادیو نے فوجی عدالت سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی تو حکومت پاکستان نے خود ہی کلبھوشن یادیو کے لئے وکیل کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیوں لیا؟


حکومت نے کلبوشن یادیو کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کو 23 جولائی کو قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کیا۔ تاہم، اپوزیشن نے اسے کلبھوشن یادیو کے لئے ایک این آر او، یعنی قومی مفاہمتی آرڈیننس، قرار دے دیا اور اس آرڈیننس کو اسمبلی سے منظور نہ ہونے دیا۔

آرڈیننس کا اجرا غیر ضروری تھا!

ماہر قانون اکرم شیخ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے پاکستان کو کلبھوشن یادیو کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کرنےکا نہیں کہا، اس لیے حکومت کی جانب سے آرڈیننس کا اجرا غیر ضرور تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے عالمی عدالت میں بتایا تھا کہ فوجی عدالت کے فیصلے ہائی کورٹ میں نظرثانی کے لئے دائر کئے جاسکتے ہیں اور اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس میں فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

اکرم شیخ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو پاکستان کے پہلے سے رائج قوانین کے تحت ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر سکتے تھے اور اس کے لئے نیا قانون لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

شخصی بنیاد پر قانون سازی پارلیمنٹ کو مجروح کرے گی


پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات، نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ کلبھوشن کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کا اجرا تحریک انصاف کی حکومت کے موقف میں یوٹرن ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی جاسوس کو سہولت دینے کے لئے آرڈیننس کا خفیہ انداز میں اجرا اور پارلیمنٹ سے رجوع نہ کرنا بتا رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔


نفیسہ شاہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ شخصی بنیاد پر قانون سازی کو پارلیمنٹ منظور کرے گی، کیونکہ یہ ایوان کے وقار کو مجروح کرے گا اور وہ بھی ایسے شخص کے لئے جس نے پاکستان میں دہشت گردی اور جاسوسی کا اعتراف کر رکھا ہے۔

نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستان کو ویانا کنونشن کے تحت بھارت کے عالمی عدالت میں جانے سے قبل ہی کلبھوشن کو نظرثانی اپیل کا حق دے دینا چاہئے تھا۔ ان کے بقول، اس عمل سے پاکستان عالمی عدالت میں سبکی سے بچ سکتا تھا۔

اکرم شیخ ایڈوکیٹ کے مطابق، حکومتی وزرا کا یہ کہنا کہ اگر آرڈیننس جاری نہ کیا جاتا تو عالمی عدالت انصاف ناراض ہوجاتی، درست نہیں ہے اور نہ ہی عالمی عدالت ہمارے عدالتی نظام میں مداخلت کر سکتی ہے۔

تاہم، ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے رائج قوانین کے مطابق، انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کی پاسداری یقینی بنانا ہوگی، تاکہ دنیا کا پاکستان کے نظام عدل پر اعتماد بہتر ہو۔


پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہے۔ لیکن، بھارت اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ کلبھوشن بحریہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں جن کا ’را‘ سے کوئی تعلق نہیں۔