الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اور سینیٹ انتخابات فروری میں کرانے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی ایم) نے بھی ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیاری شروع کر دی ہے جبکہ یہ اتحاد ان ہاؤس تبدیلی یا حکومت کے خاتمے کے لیے اسمبلیوں سے استعفی تک کے عزم کا اعادہ کر چکا تھا۔
مبصرین کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی الیکشن اور سینیٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان اور سینیٹ انتخابات ممکنہ طور پر مارچ کے بجائے فروری میں کرانے کی حکومتی تیاریوں نے سیاسی جماعتوں کو انتخابی سیاست کی جانب متوجہ کیا ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت دیگر بھی ضمنی انتخابات کے لیے امیدواروں کے چناو اور الیکشن کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر انتخابات 16 فروری، جب کہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر 19 فروری کو ضمنی انتخابات ہوں گے۔
شیڈول کے مطابق سندھ کے حلقہ پی ایس-43 سانگھڑ، پی ایس-88 ملیر اور بلوچستان کے حلقہ پی بی-20 پشین میں ضمنی انتخاب 16 فروری کو ہوں گے۔
اسی طرح قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 سیالکوٹ اور این اے 45 کُرم سمیت اسمبلی کے حلقہ پی پی 51 گوجرانوالہ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے-63 نوشہرہ پر 19 فروری کو انتخابات ہوں گے۔
سینیٹ میں ووٹنگ کے طریقۂ کار پر سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ریفرنس کے فیصلے کے بعد امکان ظاہر کیا جا ریا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے شیڈول کا بھی اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
معروف صحافی اور تجزیہ کار مجاہد بریلوی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کا یہ کہنا کہ مارچ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی جانب ہو گا کافی سخت بیان ہے اور اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقین محاذ آرائی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
'مقاصد کے حصول میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے'
ان کے خیال میں وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کسی کے ساتھ مستقل نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ جب پرویز مشرف بھی مقبولیت کھو بیٹھے تو انہیں بھی اقتدار چھوڑنا پڑا اور انہیں محفوظ راستہ دے دیا گیا۔
مجاہد بریلوی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو جب بھی لگا کہ وزیرِ اعظم عمران خان اُن کے لیے بوجھ بن رہے ہیں تو اپوزیشن کو استعفوں کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور ان کے خلاف با آسانی عدم اعتماد کی تحریک لا کر حکومت کو اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے مقاصد کے حصول میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی حد تک چلی جاتی ہے او ر پاکستان میں یہ بہت منظم اور مضبوط ادارہ ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں حکومت بہت کمزور شے ہے۔
'اپوزیشن کی تحریک کمزور پڑ چکی ہے'
وہ مزید کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک اس وقت کمزور پڑ چکی ہے۔ لانگ مارچ کی تاریخ 31 جنوری تک بڑھائی جا چکی ہے۔ جب کہ اپوزیشن جماعتوں کا استعفے دینے کا بھی کوئی موڈ نظر نہیں آتا۔
مجاہد بریلوی کے مطابق سخت بیانات دے کر ماحول کو گرم رکھنا سیاست کا حصہ ہے۔ لیکن جب بات مفادات کی آئے تو سیاست بے حد سفاک ہوتی ہے۔ جو دوستی، رشتے داری یا کسی اور کا کوئی لحاظ نہیں رکھتی۔ سیاست میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ تاہم فوری طور پر حکومت کو اس تحریک سے کوئی خاص خطرہ لاحق نہیں۔
'فوج عمران خان کی حکومت برقرار رکھنا چاہتی ہے'
دوسری جانب سیاسی مبصر اور ابلاغیات کے معلم ڈاکٹر توصیف احمد خان کہتے ہیں کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے مفادات مختلف ہیں۔ ان میں پیپلز پارٹی کے پاس ایک صوبے میں حکومت بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں اس سے قبل جو حکومتِ وقت کے خلاف سیاسی اتحاد بنتے آئے ہیں۔ ان میں تمام جماعتیں حکومت میں نہیں تھیں۔ لیکن یہ پہلا بڑا اتحاد ہے جس میں شامل ایک بڑی جماعت کے پاس ملک کے ایک صوبے کی حکومت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول پی ڈی ایم نے شروع میں اگرچہ حکومت کے خلاف سخت مؤقف اپنایا تھا اور استعفوں سمیت دھرنے کے اعلانات کیے تھے جس کی پیپلز پارٹی نے شروع سے ایک طرح سے مخالفت ہی کی تھی۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لانگ مارچ کے حوالے سے بے حد تشہیر کی۔ لیکن انہوں نے اس حقیقت کو مدِ نظر نہیں رکھا کہ ان جلسے جلوسوں میں نواز شریف، شہباز شریف اور حمزہ شہباز نہیں ہیں۔ جس کا اثر لا محالہ طور پر پڑنا ہی تھا۔
ان کے مطابق پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ توقعات کے مطابق نہ ہونے سے حکومت پر بڑے جلسوں کا دباؤ کچھ کم ہوا ہے۔ اس فرق سے پیپلز پارٹی کے رویے میں بھی تبدیلی آئی ہے اور پھر اس کے سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے سے حکومت کا تختہ الٹنے کی باتیں کافی حد تک دور جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے خیال میں یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کا رویہ اب بھی بہت سخت ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا رویہ نرم دکھائی دیتا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیر کو فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے لیے پیغام ہے کہ فوج عمران خان کی حکومت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اپوزیشن کو اسی نظام میں رہتے ہوئے ہی ریلیف مل سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا تھا کہ فوج کا کسی سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں ہے۔ مگر ان کے خیال میں یہ حقیقت ہے کہ بات چیت چل رہی تھی اور چل رہی ہو گی۔
'حزبِ اختلاف کا بیانیہ برقرار رہا تو ڈیپ اسٹیٹ کو پیچھے جانا پڑے گا'
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ سیاسی تحریکوں کے فوری نتائج سامنے نہیں آتے۔ لیکن اگر وہ جاری رہیں تو اس کے دور رس نتائج نکلتے ہیں۔ اور یہ بات ٹھیک ہے کہ فوری طور پر شاید پی ڈی ایم مقاصد میں کامیاب نہ ہو۔ مگر پی ڈی ایم اگر متحد رہی اور ان کے اس بیانیے میں کوئی فرق نہ پڑا کہ سیلیکٹرز کو حکومت چننے کا حق نہیں۔ بلکہ عوام کو ہے، تو پھر یقیناََ سیاسی منظر نامے پر فرق پڑے گا۔ جبکہ نتیجے کے طور پر پھر 'ڈیپ اسٹیٹ' کو پیچھے جانا ہی پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بلکہ اس کی کمزوری ملک کی خراب معیشت اور خراب سیاسی صورتِ حال ہے۔ بحرانوں کے باعث عمران خان کی مقبولیت میں بھی فرق آیا ہے۔
'حزب اختلاف کی تحریک نے حکومت کو جھکنے پر مجبور ضرور کیا ہے'
سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے اہداف کے حصول میں کی جانے والی مشق کو جانچنے سے قبل دیکھنا ہو گا کہ ان کے اہداف کیا تھے اور ان کا طریقۂ کار کیا تھا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس ستمبر میں حزبِ اختلاف کی 11 جماعتوں نے 26 نکات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ موجودہ حکومت کو دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق پھر اسے اقتدار سے الگ کرنے کے لیے پی ڈی ایم نے جلسے، استعفوں اور لانگ مارچ کے ساتھ ساتھ ہر آئینی اور قانونی طریقۂ کار اختیار کرنے کا اعلان کیا جس کے لیے اسمبلیوں میں بھی کردار ادا کرنے کی بات کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ڈی ایم ان 26 طے کردہ مقاصد کے حصول کے لیے قانونی طریقۂ کار اختیار کرتی ہے تو اسے ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ ان 26 نکات کو حاصل کرنے کے لیے جو طریقۂ کار اپنایا گیا وہ کیا تھا اور اسی طرح ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم مقاصد کے حصول میں ناکام رہی یا کامیاب ہوئی۔
افتخار احمد کے بقول یہ ممکن ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان مختلف نکات پر اختلاف ہو سکتا ہے یا دو یا دو سے زائد رائے ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس سے اتحاد میں شامل جماعتوں کو اختلافات کا شکار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ گوجرانوالہ سے لے کر اب تک جتنے جلسے جلوس ہوئے ہیں، ان سے پی ڈی ایم نے لوگوں کو شعور دیا اور علاقائی سیاسی جماعتوں کو قومی سطح پر آنے کا موقع ملا۔ جب کہ اکتوبر سے لے کر اب تک لوگوں کی بڑی تعداد نے اس اتحاد کی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
'اقتدار کے ایوانوں میں سب ٹھیک نہیں چل رہا، کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے'
لانگ مارچ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاسی بساط پر ایسی چالیں اکثر کھیلی جاتی ہیں جس میں مخالف کو دھوکے میں رکھا جاتا ہے اور دوسرے کی کمزوریوں پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔ ایسے میں دوسرے فریق کی کمزوری پہلے فریق کی طاقت بن جاتی ہے۔
ان کے بقول یہی کچھ پی ڈی ایم تحریک نے بھی موجودہ حکومت کے ساتھ کیا ہے جس کے وزرا ہر روز اپنے کام کے بجائے حزبِ اختلاف پر تنقید میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔ بلکہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حزبِ اختلاف کی تحریک نے حکومت کو کہیں نہ کہیں جھکنے پر مجبور ضرور کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان 26 نکات کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حالات و واقعات نے کئی نکات اسٹیبلشمنٹ یا حکومت سے تسلیم کرا لیے ہیں۔ اور کئی ایسے نکات ہیں جو اب تک تسلیم نہیں کیے گئے جن میں سے سب سے بڑا نکتہ عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی ہے جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔
افتخار احمد نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو قانونی اور آئینی طریقۂ کار ہی اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جمہوریت کو پھلنے پھولنے دینے کی برسوں کی محنت رائیگاں جانے کا ڈر ہے۔
'پیپلز پارٹی آج تک آئینی حدود سے باہر نہیں گئی'
انہوں نے مزید کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ پیپلز پارٹی آج تک آئینی حدود سے باہر نہیں گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی اس کےباوجود وہ انتخابات میں لڑی۔ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا اس کے بعد بھی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے حصہ لیا۔ کیوں کہ 1985 میں انتخابات کے بائیکاٹ کا بھاری خمیازہ پیپلز پارٹی کو بھگتنا پڑا تھا۔ اس لیے انہیں یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کسی صورت بھی استعفے دے کر غیر آئینی راستہ اختیار نہیں کرے گی۔
اسمبلیوں سے استعفوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے کیوں کہ ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ایسے میں ملک غیر یقینی صورتِ حال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف یہ بات خوب سمجھتی ہے کہ فوج کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنا مناسب نہیں۔ جب کہ اس کے ساتھ ہی حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی اس پر متفق ہیں کہ انتخابی عمل میں مزید شفافیت لانے کے لیے قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہے۔