حکومتِ پاکستان نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جس پر صدرِ عارف علوی نے اعتراض اٹھا دیا ہے۔
کابینہ ڈویژن نے پیر اور منگل کی درمیانی شب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جب کہ صدرِ پاکستان عارف علوی نے حکومت کے اس اقدام پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گورنر کو ہٹانے کی وزیرِ اعظم کی ایڈوائس مسترد کر دی ہے۔
گورنر پنجاب کے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے سے متعلق صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم آفس آمنے سامنے ہیں۔ کابینہ ڈویژن کے نوٹی فکیشن کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر گورنر پنجاب کو ہٹایا گیا ہے اور نئے گورنر کی تعیناتی تک اسپیکر پنجاب اسمبلی قائم مقام گورنر کے فرائض انجام دیں گے۔
دوسری جانب صدرِ پاکستان آفس کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گورنر پنجاب کو صدرِ مملکت کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا اور آئین کے آرٹیکل 101 کی شق تین کے مطابق گورنر صدرِ مملکت کی رضا مندی تک عہدے پر قائم رہے گا۔
صدر پاکستان کے مطابق انہیں یقین ہے کہ گورنر کو ہٹانا غیر منصفانہ اور انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے، ضروری ہے کہ موجودہ گورنر ایک صحت مند اور صاف جمہوری نظام کی حوصلہ افزائی اور اس کے فروغ کے لیے عہدے پر قائم رہیں۔
صدر مملکت نے مزید کہا کہ وہ اس مشکل وقت میں دستورِ پاکستان کے اصولوں پر قائم رہنے کے لیے پُر عزم ہیں اور گورنر پنجاب کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق وزیرِ اعظم کی ایڈوائس کو مسترد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل صدرِ پاکستان اور وزیرِ اعظم کے درمیان اس وقت تنازع سامنے آیا تھا جب گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے سے معذرت کر لی تھی۔
نئے گورنر پنجاب کی تعیناتی تک اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی قائم مقام گورنر اور دوست محمد مزاری اسپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔
پنجاب حکومت کے ذرائع کاکہنا ہے کہ اگر سبکدوش گورنر عمر سرفراز نے گورنر ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اُنہیں روکا جائے گا جب کہ گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔
SEE ALSO: حمزہ شہباز نے پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کا حلف اُٹھا لیا'صدر آئینی طور پر وزیرِ اعظم کی ہدایت پر عمل کے پابند ہیں'
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ صدرِ پاکستان آئینی طور پر وزیراعظم کی ہدایت پر عمل کرنے کے پابند ہیں لیکن موجودہ صورتِ حال میں کابینہ نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے کوئی وجہ پیش نہیں کی۔
سابق وفاقی وزیرِ قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں صدر کابینہ کے فیصلے پر عمل کے پابند ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اِس بارے میں آئین واضح ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے خالد رانجھا نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں لگتا ہے کہ اصل تنازع صدر اور وزیراعظم کے درمیان ہے۔ ان کے خیال میں یہ تنازع کابینہ اور گورنر کے درمیان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کہتا ہے اگر کابینہ، صدرِ مملکت کو ایڈوائس کر دے تو گورنر کو خود ہی اپنا منصب چھوڑ دینا چاہیے۔
سابق وزیرِ قانون سمجھتے ہیں کہ صدرِ مملکت وزیراعظم کو گورنر پنجاب کو ہٹانے سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا کہہ سکتے ہیں کیوں کہ کابینہ نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے کوئی وجہ پیش نہیں کی۔
برطرف گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر نے اُن کو ہٹانے کی سمری مسترد کی ہے۔ کیبنٹ ڈویژن نے اُنہیں ہٹانے کا غیر آئینی نوٹی فکیشن جاری کیا جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔
'حکومت نے غیر آئینی اقدامات کی فیکٹری لگا رکھی ہے'
وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیا الرحمٰن کے مطابق چوہدری پرویز الہی نے تاحال قائم مقام گورنر کا چارج نہیں سنبھالا۔ اِس حوالے سے اُن کی آئینی ماہرین سے مشاورت جاری ہے۔
پرویزالٰہی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ہی امور سرانجام دیں گے۔ غیر آئینی اقدامات کی فیکٹری حکومت نے لگا رکھی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کی برطرفی کا معاملے پر اُن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب تاحال وزیر اعلی کی ایڈوائس پر گورنر کی منظوری لینے میں ناکام ہے۔ وزیر اعلی نے آج ایڈووکیٹ جنرل کو ہٹانے کی سمری گورنر کو بھجوائی تھی۔
بیان کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل کی برطرفی کے لیے گورنر کی منظوری لازمی ہے۔ گورنر ہاؤس کی ٹیم منظوری لیے بغیر پنجاب اسمبلی سے ناکام واپس چلی گئی۔ چوہدری پرویز الہی نے تاحال قائم مقام گورنر کا چارج ہی نہیں لیا۔ چوہدری پرویز الہی قائم مقام کا چارج لے کر ہی ایڈوائس پر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ قائم مقام گورنر کے فیصلے تک ایڈووکیٹ جنرل کو ہٹانے کی ایڈوائس غیر مؤثر رہے گی۔
علاوہ ازیں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی نے برطرف گورنر عمر سرفراز چیمہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلم لیگ( ن) کے غیرآئینی اقدامات کی بھر پور مزاحمت کرتے ہیں۔
دوسری جانب محکمۂ قانون پنجاب نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو ہٹانے کی سمری وزیراعلٰی پنجاب کو بھجوا دی ہے۔ سمری ارسال کیے جانے کے بعد لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احمد اویس نے کہا کہ اُنہیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے ہٹانے کا اختیار صرف گورنر کو ہے اور جب تک وہ چاہیں گے وہ اِس عہدے پر قائم رہیں گے۔
عمر سرفراز سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ مسلم لیگ ن کا غیر آئینی اقدام ہے۔ جس پر عدالتِ عظمٰی کو سوموٹو نوٹس لینا چاہیے۔ احمد اویس کا کہنا تھا کہ آئین کی پاسداری سب کا فرض ہے۔ اِس موقع پر اُنہوں نے اپیل کی کہ پاکستان کے ہر شہری کو آئین کی پاسداری کے لیے نکلنا ہو گا۔