تین ماہ پہلے تک کسی کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ کووڈ 19 کا دنیا میں کوئی وجود بھی ہے۔ لیکن، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ پوری دنیا میں ایسے پھیلا کہ تقریباً پانچ لاکھ افراد اس کی لپیٹ میں آگئے۔
دنیا کی بڑی بڑی معیشتیں اور صحت کے مضبوط نظام لرزے کا شکار نظر آئے۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ پروازیں منسوخ، سرحدیں بند، ہوٹل، ریستوران، تفریح گاہیں، پارک سنسان، دفتر گھروں میں منتقل ہوگئے اور گھر سے باہر نکلنا خطرناک قرار پایا۔ لوگ آپس میں ملنے سے گریزاں، حتٰی کہ باہم گلے ملنا تو کیا دوستوں، عزیزوں سے ہاتھ تک ملانے میں خطرہ پیدا ہو گیا۔ تمام سماجی رابطے فاصلوں کا شکار ہو گئے۔
کسی نے کب سوچا تھا کہ ترقی پذیر ملک کرونا وائرس کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ امریکہ یورپ، ایشیا کوئی مقام بھی تو محفوظ نہیں۔ ملک اپنی سرحدیں بند بھی کردیں تو کیا ہوگا۔ کرونا وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔
مگر کیا اس کا ادراک پہلے سے نہیں کیا جا رہا تھا؟ کیا دنیا اتنی ہی بے خبر تھی کہ اپنے بچاؤ کیلئے کچھ نہ کر سکی؟ کیا صحت اور سائنس انتہائی جدید ٹیکنالوجی کی موجودگی میں بھی آنے والے خطروں سے باخبر نہیں ہو سکتے؟
شاید ایسا نہیں ہے! اس پیمانے کی وبا کا اندازہ صحت کے ماہرین کو ہو رہا تھا۔ سینکڑوں مضمون اور کتابیں یہ باور کرانے کیلئے لکھی گئیں کہ یہ عالمی وبا ناگزیر ہے۔
بل گیٹس تو 2018 سے کہ رہے تھے اور جانز ہاپکنز یو نیورسٹی کے سنٹر فار ہیلتھ سیکیوریٹی نے اکتوبر میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ اندازہ ہے کہ کرونا وائرس کی ایک وبا پھیلے گی جو چمگادڑوں اور سوؤروں سے انسانوں میں منتقل ہوگی۔ اور اس سے جو مرض لاحق ہو گا وہ سارس سے ملتا جلتا ہو گا۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پہلے سال اس وائرس کے خلاف کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہو گی۔ اس مضمون میں ممکنہ طور پر ہلاک ہونے والے لوگوں کی جو تعداد بتائی گئی وہ کروڑوں میں ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ چونکہ دنیا کی پوری آبادی کے اس سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے اسلئے مرنے والوں کی تعداد بھی ہر ہفتے دوگنی ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ مضمون ایک مفروضہ تھا مگر وبا تو پھیلی ہے۔
نامہ نگار ایڈ ینگ نے 'دی اٹلانٹک' میں لکھا ہے اب تک تو یہ کہا جا رہا تھا کہ ایسا ہوا تو کیا ہو گا؟ مگر اب سوال ہے کہ ایسا ہو گیا ہے اب کیا کریں؟ انہوں نے بوسٹن سکول آف میڈیسن کی متعدی امراض کی ماہر ڈاکٹر ناہید بہدیلیا کے حوالے سے لکھا ہے کہ "کچھ بھی کر لیں کرونا وائرس نے دنیا میں ملکوں کے مضبوط ترین نظامِ صحت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔خود امریکہ میں ایک ماہ پہلے تک سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول کوئی مؤثر ٹیسٹ فراہم نہیں کر سکا۔ نجی لیبارٹریاں، ایف ڈی اے اور افسر شاہی کی رکاوٹوں میں الجھی رہیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ہزاروں لوگوں کو پہلے ہی ٹیسٹ کر لیا جانا چاہیئے تھا وہاں صرف سینکڑوں کے ٹیسٹ ہو سکے۔"
امریکہ میں صحت کا نظام اس مفروضے پر چلتا ہے کہ ہنگامی حالات میں وہ ریاستیں جو محفوظ ہیں، خطرے کی شکار ریاستوں کی مدد کریں گی۔ ایسا طوفانوں اور دیگر قدرتی آفتوں کی صورت میں تو ممکن رہا ہے مگر کرونا وائرس کی وبا نے تو امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
پہلے سے تیاری نہ ہونے کے سبب اب ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد وسائل سے بڑھتی جا رہی ہے اور دوا یا کوئی ویکسین تو شائد بہت بعد میں سامنے آئے فی الحال تو ماسک جیسی چھوٹی چیز کی کمی بھی پریشان کر رہی ہے۔ اور اگر لوگوں نے سماجی فاصلے جیسی ہدایات پر عمل نہ کیا یا گھروں میں بند رہنے کو اہمیت نہ دی تو کرونا وائرس سے بچاؤ ممکن نہیں ہو گا، کیونکہ ملکوں کی سرحدیں بند کی جا سکتی ہیں مگر کرونا وائرس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔