|
تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات نے جمعرات کو عرب دنیا کے پہلے نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے اسے ایک ’اہم قدم‘ قرار دیا۔
ابوظہبی میں تعمیرکردہ براکہ نیوکلیئر انرجی پلانٹ اپنے چوتھے اور آخری ری ایکٹر کے کمرشل آپریشن میں داخل ہونے کے بعد سالانہ 40 ٹیرا واٹ بجلی پیدا کرے گا، یہ بات سرکاری ملکیت والی امارات نیوکلیئر انرجی کارپوریشن (ENEC) نے ایک بیان میں کہی۔
We%27re excited to announce that Unit 4 of the Barakah Plant is now commercially operational.Read more: https://t.co/N9TDDW69Tr#ClimateChange #CleanEnergy #NuclearEnergy #BarakahPlant pic.twitter.com/aUNyVgI3gS
— Emirates Nuclear (@ENEC_UAE) September 5, 2024
نیوکلیئر انرجی کارپوریشن کا کہنا ہے یہ کارخانہ اس گرم صحرائی خلیجی ریاست کی بجلی کی ضروریات کا 25 فیصد پیدا کرے گا، جہاں ایئر کنڈیشننگ ہر جگہ موجود ہے جو نیوزی لینڈ کی سالانہ کھپت کے تقریباً برابر ہے۔
انرجی کارپوریشن نے کہا کہ یہ پلانٹ ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) سمیت متعدد کمپنیوں کو بجلی فراہم کرے گا، جو دنیا کی سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
براکہ نے، جس کا مطلب ہے "برکت" 2020 میں اس وقت کام شروع کیاتھا جب اس کے چار ری ایکٹرز میں سے پہلا فعال ہوا تھا۔
ترقبونا#تغير_المناخ #طاقة_نظيفة #طاقة_نووية Watch. This. Space.#ClimateChange #CleanEnergy #BarakahPlant pic.twitter.com/pUaAVIO8XI
— Emirates Nuclear (@ENEC_UAE) September 4, 2024
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ سعودی عرب نے بھی کہا ہے کہ وہ جوہری ری ایکٹر بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
شیخ محمد بن زید النہیان نے بارکہ کی تکمیل کو "نیٹ زیرو "کی طرف سفر پر ایک اہم قدم قرار دیا۔ اس کا مطلب گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی مقدار اور فضا سے انہیں ہٹانے کی مقدار کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے۔ یہ اخراج میں کمی اور اخراج کو ہٹانے کے امتزاج کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
شیخ محمد بن زید النہیان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا، "ہم آج اور کل اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے فائدے کے لیے توانائی کے تحفظ اور پائیداری کو ترجیح دیتے رہیں گے۔"
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق، پلانٹ کی فعال زندگی تقریباً 60 سے 80 برس ہے، جس کے اختتام پر اسے ختم کرنا پڑے گا۔
متحدہ عرب امارات، سات امارات پر مشتمل ہے، جس کا دارالحکومت ابوظہبی اور اقتصادی مرکز دبئی ہے، یہ اوپیک تنظیم میں تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
اس کی معیشت کی بنیاد زیادہ تر تیل پر ہے لیکن اب وہ 2050 تک اپنی نصف ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ قابل تجدید توانائی تیار کرنے کے لیے اربوں ڈالرخرچ کر رہا ہے۔
پچھلے سال، اس نے COP28 اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کی میزبانی کی جس کے نتیجے میں فوسل فیولز سے منتقلی کا معاہدہ ہوا تھا۔
متحدہ عرب امارات ایران سے خلیج کے اس پار واقع ہے، جس کے ساحلی شہر بوشہر کے باہر روس کا بنایا ہوا جوہری پاور پلانٹ ہے اس کے علاوہ ایران کا ایک متنازعہ یورینیم افزودگی کا پروگرام ہے۔
متحدہ عرب امارات نے بارہا کہا ہے کہ اس کے جوہری عزائم "پرامن مقاصد" کے لیے ہیں اور اس کا مقصد افزودگی کے کسی پروگرام یا نیوکلیئر ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی کو تیار کرنا نہیں ہے۔
ملک اپنی زیادہ تر بجلی کی ضروریات کے لیے گیس سے چلنے والے اسٹیشنوں کا استعمال کرتا ہے، لیکن ابوظہبی کے باہر دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی سے چلنے والا پلانٹ بھی ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی کی اطلاعات پر مبنی ہے۔