بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر تازہ ترین مبینہ در اندازی میں عسکریت پسندوں سے ہونے والی جھڑپ میں تین مسلح افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ ان کے ساتھیوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔
بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ اوڑی سیکٹر میں گزشتہ چھ روز کے دوران پیش آنے والا در اندازی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان نومبر 2003 میں ہونے والے فائر بندی کے سمجھوتے کی رواں برس فروری میں تجدید کے بعد ایل او سی پر پیش آنے والا یہ اپنی نوعیت کا تیسرا بڑا واقعہ ہے۔
بھارتی فوج اور مقامی پولیس ذرائع کے مطابق 18 ستمبر کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے مبینہ طور پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخل ہونے والے مشتبہ عسکریت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔
بھارتی فوج کی پندرہویں کور جسے چنار کور بھی کہا جاتا ہے کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل دیوندر پرتاپ پانڈے نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ گزشتہ سات ماہ کے دوران در اندازی کا پہلا بڑا واقعہ ضلع بانڈی پور میں پیش آیا تھا۔ لیکن اس گروپ میں شامل تمام عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
کور کمانڈر نے اعلیٰ پولیس عہدے دار انسپکٹر جنرل وجے کمار کے ہمراہ جمعرات کو پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ حالیہ واقعے میں تاحال تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جنہیں ضلع بارہمولہ کے گھنے جنگلات سے گھرے ہتھلنگا علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے گھیر لیا تھا۔
بھارتی فوج نے ایل او سی کے علاقے اوڑی میں 18 ستمبر کو ہونے والی مبینہ دراندازی کی خبر ملتے ہی اوڑی سیکٹر کے ایک وسیع علاقے کو گھیرے میں لے کر بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کارروائی میں فوج کے پیرا کمانڈوز اور آرمی ایوی ایشن کور کے ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق جموں و کشمیر کی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ ( ایس او جی) بھی اس کارروائی میں شامل ہو گئے تھے۔
آپریشن کے آغاز پر علاقے میں معطل کی گئی موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کو دو دن بعد بحال کر دیا گیا ہے۔
بھاری اسلحہ برآمد کرنے کادعویٰ
سرینگر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل پانڈے اور انسپکٹر جنرل پولیس کمار نے بتایا کہ جمعرات کو در اندازوں کے خلاف کیے گئے آپریشن کے دوران پانچ اے کے 47 بندوقیں، سات پستول، 38 چینی اور سات پاکستانی ساختہ دستی بم، دو انڈر بیرل گرنیڈ لانچر اور 24 گرنیڈ برآمد کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ کھانے پینے کا سامان اور پاکستانی کرنسی کے 35 ہزار روپے بھی برآمد ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تا حال ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں میں سے صرف ایک کی شناخت ہو سکی ہے جو پاکستانی شہری ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے 18 ستمبر کو در اندازی کرنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے ابتدائی تبادلے میں ایک بھارتی فوجی زخمی ہوا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل پانڈے نے کہا کہ جمعرات کی صبح فوج کے جوانوں نے اوڑی سیکٹر میں ایل او سی پر در اندازں کے ایک گروپ کو بھارتی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا۔ جب انہیں للکارا گیا تو طرفین میں جھڑپ شروع ہوگئی جس میں تین دہشت گرد مارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے 18 ستمبر کو کی گئی اسی طرح کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغان طالبان سے تعلق کی تردید
اس سوال پر کہ کیا مبینہ در اندازی کے تازہ واقعے کا افغانستان یا طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نظر آتا ہے؟ ان کا کہنا تھا ’’بھارتی فوج پوری طرح چوکس ہے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ ستمبر میں پاکستان کی طرف سے رویے میں تبدیلی آسکتی ہے اور ستمبر کے مہینے میں یا موسمِ سرما کی آمد سے پہلے ایل او سی پر گھس پیٹھ (دراندازی) ہوسکتی ہے۔‘‘
انسپیکٹر جنرل پولیس وجے کمار نے کہا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پُرامن ماحول، بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد، وفاقی وزرا کے کامیاب دوروں کے علاوہ سرکردہ علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کی وفات کے بعد حالات معمول پر رہنے کے بعد ایل او سی کی دوسری جانب مایوسی پھیل گئی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ اب 'ہائبرڈ اور پارٹ ٹائم دہشت گردوں' کی روش چل پڑی ہے جنہیں شام کے اوقات میں ٹارگٹ ہلاکتیں کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے جارہے ہیں اور وہ اگلے روز اپنی کارروائی کرتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں سے اس سال اب تک 97 پستولیں برآمد کی جاچکی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 'ہائبرڈ دہشت گردوں' کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ جو غیر مسلح یا آف ڈیوٹی پولیس اہلکاروں، شہریوں اور سیاسی رہنماؤں کو ہدف بنا رہے ہیں۔
فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں ہورہی
اس سے پہلے لیفٹننٹ جنرل پانڈے نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ رواں برس فروری کے آخری ہفتے کے بعد ایل او سی پر پاکستانی فوج کی طرف سے فائر بندی کے سمجھوتے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران اگرچہ عسکریت پسندوں کی طرف سے در اندازی کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکیں کیوں کہ انہیں ماضی کے برعکس پاکستانی فوج کی طرف سے فائرنگ کور نہیں فراہم کیا گیا تھا۔
پاکستان بھارت کی جانب سے عائد کیے گئے دراندازی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
سیز فائر معاہدے کی تجدید کے مثبت نتائج
واضح رہے کہ فروری کے آخری ہفتے میں بھارت اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز نے اچانک اور غیر متوقع طور پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔
اس بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کی افواج باہمی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے سرحدوں پر فائر بندی کے سمجھوتے پر سختی سے عمل درآمد کریں گی۔
اس پیش رفت پر لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ۔ جموں سرحد جو، پاکستان میں ورکنگ باؤنڈری اور بھارت میں انٹرنیشنل بارڈر کہلاتی ہے، کے دونوں اطراف مقیم شہریوں نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
اس علاقے میں بسنے والے لوگ سالہا سال سے جاری سرحدی تناؤ اور مقابل فوجوں کی آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل سے دوچار تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیفٹننٹ جنرل پانڈے نے کہا کہ اس وقت کشمیر وادی میں 60 سے 70 غیر ملکی عسکریت پسند موجود ہیں اور ان کے بقول وہ اصل میں پاکستانی شہری ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنا نہیں بلکہ مقامی نوجوانوں کو مسلح کر کے انہیں اس طرح کے حملوں کے لیے تیار کرنا ہے۔
جمعرات کو رات گئے بھارتی فوج نے سری نگر میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے اس قدر بھاری اسلحے سے لیس گروپ کی طرف سے در اندازی کرنا مقامی پاکستانی فوجی کمانڈروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں تشدد کی سطح کم ہے۔ در اندازی کی کوشش پاکستان کی طرف سے کراس بارڈر دہشت گردی کو برقرار رکھنے اور وادی میں اسلحے کی ترسیل سے پُر تشدد واقعات کی منصوبہ بندی کرنے کی کوششوں کا عندیہ دیتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے عائد کیے جانے والے اس طرح کے الزامات کی بارہا تردید کرتا رہا ہے۔