افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شروع، طالبان قیدیوں کی رہائی کی تیاریاں

امن معاہدے کے تحت آئندہ ساڑھے چار ماہ کے دوران افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 13000 سے کم ہو کر 8600 کر دی جائے گی۔ (فائل فوٹو)

امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والے امن معاہدے کے تحت امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا شروع کر دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج نے تصدیق کی ہے کہ امن معاہدے پر باضابطہ طور پر عمل درآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔

افغانستان میں موجود امریکی فوج کے ترجمان کرنل سنی لیگیٹ کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ امریکہ معاہدے کے مطابق آئندہ ساڑھے چار ماہ کے دوران افغانستان میں فوجیوں کی تعداد 13000 سے کم کر کے 8600 تک لے آئے گا۔

ایک اور امریکی فوجی عہدیدار نے بتایا ہے کہ افغانستان سے سیکڑوں فوجی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت جا رہے ہیں۔ یہاں سے جانے والے فوجیوں کی جگہ مزید فوجی تعینات نہیں کیے جائیں گے۔

یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کابل شدید سیاسی انتشار کا شکار ہے۔

ایک روز قبل ہی افغان دارالحکومت کابل میں دو مختلف تقاریب کے دوران اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ نے صدارت کا حلف اٹھایا ہے۔ امریکی حکام نے صدر اشرف غنی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی تھی۔

اشرف غنی نے پیر کو دوسری صدارتی مدت کے لیے حلف اٹھایا۔ (فائل فوٹو)

گزشتہ برس ستمبر میں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات میں اشرف غنی کی برتری کا اعلان کیا تھا تاہم ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے انتخابات میں بدانتظامی اور دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

'اے پی' کے مطابق کابل کی سیاسی صورتِ حال امریکہ کے لیے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ واشنگٹن افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ ختم کرنے کا خواہاں ہے۔ پیچیدہ سیاسی صورت حال میں امریکہ کے لیے طالبان سے معاہدے پر عمل درآمد پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوجی کے ترجمان کے مطابق امریکی فوج افغانستان میں اپنے اہداف کا حصول جاری رکھے گی جب کہ القاعدہ، داعش اور ان کے حامیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں گی اور افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد اور معاونت کی جاتی رہے گی۔

واضح رہے کہ امن معاہدے کے تحت امریکہ نے آئندہ 14 ماہ کے دوران افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کرنا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ، طالبان معاہدے پر دستخط

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' طالبان کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ وہ بھی امن معاہدے پر عمل در آمد کے لیے تیار ہیں اور ان ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی حراست میں ہیں۔ جن میں اکثریت افغان فوجیوں کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی بھی ایک ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دیں گے جس کے بعد ان قیدیوں کو طالبان اپنی گاڑیوں میں ساتھ لے جائیں گے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ایک رہنما کے مطابق طالبان قیدیوں کو لینے کے لیے گاڑیاں بگرام جیل روانہ کر دی گئی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

نائن الیون سے افغان امن معاہدے تک: کب، کیا ہوا؟

واضح رہے کہ فروری کے آخر میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت طالبان نے یہ مطالبہ کیا تھا اعتماد سازی کے لیے ان کے 5000 قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

طالبان رہنما کے مطابق زلمے خلیل زاد نے پیر کو اُنہیں بتایا تھا کہ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا جس کے بعد گاڑیاں اُن قیدیوں کو لینے کے لیے بھیجی گئی ہیں۔

یہ واضح نہیں کہ افغان حکومت کی جانب سے فوری طور پر کتنے قیدی رہا کیے جائیں گے۔ تاہم 'رائٹرز' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر 1000 سے 1800 جنگجوؤں کو رہا کیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کے انتظامات مکمل کر لیے ہیں جنہیں افغانستان میں مختلف محفوظ مقامات پر منتقل بھی کر دیا ہے۔