کرد ریفرنڈم کے بارے میں بدھ کو جاری ہونے والے سرکاری نتائج سے پتا چلتا ہے کہ عراق سے آزادی کے معاملے پر عراقی کردوں نے 92 فی صد کی واضح اکثریت سے ’’ہاں‘‘ میں رائے دی ہے۔
پیر کے روز ہونے والے ریفرنڈم پر عراق کی حکومت کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملکوں اور امریکہ نے اعتراض اٹھایا تھا۔
دریں اثنا، مشرق وسطیٰ کی متعدد ایئرلائنز نے کہا ہے کہ وہ عراقی حکم نامے کی پاسداری کریں گے، جس میں شمالی عراق میں کرد علاقے میں ہوائی اڈوں سے پرواز بھرنے اور اترنے پر سفری پابندی لگائی گئی ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا ہے کہ اگر کرد رہنما علاقائی ہوائی اڈوں کا کنٹرول وفاقی حکام کے حوالے نہیں کرتے تو وہ پروازوں پر پابندی کا حکم دیں گے، جس بات سے کردوں نے انکار کر دیا ہے۔
لبنان کی قومی ایئرلائن ’مڈل ایسٹ ایئرلائنز‘ کے سربراہ، محمد الحوت نے کہا ہے کہ جمعے کے بعد اربیل کی جانب اور وہاں سے پرواز لینے والی تمام فلائیٹس بند کردی جائیں گی۔ ’اجپٹ ایئر‘ نے بھی اعلان کیا ہے کہ جمعے سے قاہرہ سے اربیل کے درمیان پروازیں بند کر دی جائیں گی۔
ہمسایہ ایران نے، جہاں بڑی تعداد میں کرد آباد ہیں، پہلے ہی عراق کے کرد علاقے کی جانب تمام پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
منگل کے روز، عراقی کرد لیڈر، مسعود بارزانی نے عراقی حکام کے ساتھ ’’مکالے‘‘ کا مطالبہ کیا ہے، جنھوں نے اس رائے دہی کو، جس پر عمل درآمد لازم نہیں، غیر آئینی قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’برعکس اس تشویش کے، آئیے بہتر مستقبل کے لیے بات چیت کریں۔ مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کی راہ درست ہوا کرتی ہے، نہ کہ دھمکیاں یا پھر طاقت کی زبان‘‘۔
تیل کی آمدن اور خطے کے کلیدی شہروں پر کنٹرول کے معاملے پر، کردوں اور عراقی حکومت ایک طویل مدت سے تنازعات کا شکار ہیں۔
ایران اور ترکی کی حکومتیں آزادی کے ریفرینڈم کی مخالف رہی ہیں، جس کا سبب یہ خوف ہے کہ اس کے نتیجے میں اُن کے ملکوں میں بھی علیحدگی پسندی کی سوچ فروغ پا سکتی ہے۔