مریخ کی گہرائی میں پانی کے وسیع ذخائر کا امکان

مریخ کی سطح کی ایک قریبی تصویر جو اس کے اربوں سال پرانی کیفیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک نئی تحقیق سے مریخ کی گہرائی میں پانی کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

  • ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مریخ کی سطح سے 10 سے 20 کلومیٹر کی گہرائی میں پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
  • یہ ذخائر تقریباً ایک سمندر کے برابر ہیں۔
  • یہ انکشاف مریخ پر بھیجی گئی روبوٹک گاڑی ان سائٹ کے ملنے والے ڈیٹا کے مطالعے سے ہوا ہے۔
  • مریخ کی سطح پر اربوں سال پہلے جھیلیں اور دریا تھے،جن کا کچھ پانی جذب ہو کر گہرائی میں چلا گیا باقی بخارات بن کر غائب ہو گیا۔
  • مریخ پر پانی حاصل کرنے کے لیے ڈرلنگ کی ضرورت ہو گی۔

ویب ڈیسک۔۔

مریخ سے حاصل ہونے والے سائنسی ڈیٹا پر تحقیق سے اس سرخ سیارے پر پانی کی موجودگی کے امکان کو تقویت ملی ہے اور سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہاں پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔

ایک سائنسی جریدے ’پروسیڈنگ آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مریخ کی سطح سے تقریباً 10 سے 20 کلومیٹر نیچے پانی کی بھاری مقدار موجود ہو سکتی ہے۔

سائنس دانوں نے پانی کی مقدار کے متعلق کہا ہے کہ وہ ایک عالمی سمندر کو ایک سے دو کلومیٹر تک کی گہرائی کو بھرنے کے لیے کافی ہو گا۔

پانی کی دریافت خلائی سائنس دانوں کے لیے بہت امید افزا خوش خبری ہے جو مستقبل میں مریخ پر انسانی بستیاں بسانے اور خلائے بسیط میں مزید تحقیق کا عزم رکھتے ہیں۔

SEE ALSO: مریخ سے ناسا کی روبوٹک مشین ’ان سائٹ‘ کا آخری پیغام

مریخ پر پانی کی موجودگی کے آثار ناسا کی جانب سے مریخ کی سطح پر اتاری جانے والی اس روبوٹک گاڑی ’ان سائٹ‘ کے بھیجے گئے ڈیٹا سے ملے ہیں جو 2018 سے 2022 کے دوران موصول ہوئے تھے۔ اس ڈیٹا پر سائنسی مراکز میں تجزے اور تحقیق کا کام جاری ہے۔

’ان سائٹ‘ 5 مئی 2018 کو زمینی مرکز سے مریخ کی جانب روانہ کی گئی تھی جو طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد 26 نومبر 2018 کو مریخ کی سطح پر اتری۔ اسے جس علاقے میں اتارا گیا تھا وہ ’الیسم پلینیشا‘ کہلاتا ہے۔ اس گاڑی پر ایک زلزلہ پیما بھی نصب تھا جس نے چار سال کے عرصے میں مریخ پر 1300 سے زیادہ زلزلوں کو ریکارڈ کر کے اس کا ڈیٹا زمین پر بھیجا۔

زلزلوں کے ارتعاش کی نوعیت سائنس دانوں کو سطح سے نتیجے گہرائیوں میں بہت سی چیزوں کے بارے میں نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ زلزلے کی لہروں سے سائنس دانوں کو یہ پتہ چلتا کہ وہ قسم کے مواد سے ٹکرا کر آ رہی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

روبوٹک گاڑی ۔ ان سائٹ

ان سائٹ نے 15 دسمبر 2022 میں اپنا کام بند کر دیا تھا اور ناسا نے 21 دسمبر کو یہ تصدیق کی کہ سائنسی گاڑی اب فعال نہیں رہی۔

اس سائنسی تحقیق میں برکلے میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر مائیکل مینگا بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سائنس دانوں نے مریخ پر تحقیق کے سلسلے میں وہی ٹیکنیک استعمال کی ہے جو وہ زمین پر پانی کی تلاش کے لیے کرتے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اپنے ابتدائی دور میں مریخ آج کی طرح خشک اور سنگلاخ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی سطح پر بہت سی جھیلیں تھیں اور دریا بہتے تھے۔ شاید وہاں ایک سمندر بھی تھا اور اس سیارے پر بھاری مقدار میں پانی موجود تھا۔

SEE ALSO: مریخ پر دنیا کے پہلے ہیلی کاپٹر کا مشن ختم ہو گیا

مریخ کا پانی کہاں چلا گیا؟ جواب مل گیا۔

خلائی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مریخ کی فضا ہلکی اور لطیف ہوتی چلی گئی اور اس قابل نہ رہی کہ اپنی سطح پر موجود چیزوں کو اپنے ساتھ باندھ کر رکھ سکے۔ اربوں سال پر پھیلے ہوئے اس سفر میں کچھ پانی سطح میں جذب ہو کر مریخ کی گرائیوں میں چلا گیا جب کہ سطح پر موجود بقیہ پانی بخارات بن کر خلا میں غائب ہو گیا۔

یہ عمل تقریباً تین ارب سال پہلے مکمل ہو گیا تھا اور تب سے یہ ایک سنگلاخ اور صحرائی سیارہ بنا ہوا ہے۔

مریخ پر ریت کے مسلسل چھوٹے بڑے طوفان آتے رہتے ہیں۔ ان سائٹ نے چار سال کے عرصے میں 20 ہزار سے زیادہ طوفانوں کو ریکارڈ کیا ہے۔

منگا کا کہنا تھا کہ نیا مطالعہ مریخ کے بارے میں سب سے بڑے سوالوں میں سے ایک کا جواب فراہم کرتا ہے کہ مریخ کا پانی کہاں چلا گیا؟

Your browser doesn’t support HTML5

ناسا نے مریخ پر آکسیجن بنالی

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سین ڈیاگو میں سمندروں سے متعلق تحقیق کے ایک سائنس دان واشن رائٹ کا کہنا ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں زندگی بھی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلکہ اس کی بجائے سائنسی نتائج ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ وہاں ایک ایسا ماحول موجود ہے جو ممکنہ طور پر رہنے کے قابل ہو سکتا ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی کی تصدیق کے لیے ایسے آلات کی ضرورت ہو گی جن سے مریخ کی سطح میں ڈرلنگ کی جا سکے اور دوسرے امور سرانجام دیے جا سکیں۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)