مشرق وسطیٰ امن معاہدہ، موقع گںوانا نہیں چاہیئے: اوباما

ایک حالیہ انٹرویو میں، مسٹر اوباما نے اسرائیلی رہنما پر زور دیا کہ امن کے حصول اور سمجھوتے تک پہنچنے کے موقع سے استفادہ کیا جائے، جس کے باعث اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن مذاکرات کے لیے 'فریم ورک' کے تعین کی حتمی تاریخ قریب آرہی ہے، اور لازم ہے کہ مشکل فیصلے کیے جائیں۔

مسٹر اوباما نے یہ بات اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پیر کے دِن وائٹ ہائوس میں خطاب میں کہی۔ اُنھوں نے کہا کہ اب بھی دو ریاستوں کی تشکیل ممکن ہے، جن میں سے ایک اسرائیل کے لیے اور دوسری فلسطینیوں کے لیے ہو۔ تاہم، ایسے مذاکرات مشکل ہوں گے اور 'دونوں فریق کی طرف سے قربانی' درکار ہوگی۔

مسٹر نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی عوام اُن سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنے موقف پر پختہ رہیں اور ممکنہ بہترین سمجھوتا طے کریں۔ اُنھوں نے کہا کہ امن کے حصول کے لیے اسرائیل اپنا کردار نبھا رہا ہے، لیکن، فلسطینی ایسا نہیں کر رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے'سب سے بڑا چیلنجٗ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے۔

اس سے قبل، امریکی صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان پیر کے دِن وائٹ ہائوس میں ملاقات ہوئی، جس میں امریکی سربراہ نے مشرق وسطیٰ امن کے حتمی معاہدے کے سلسلے میں تعطل کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔


ایک حالیہ انٹرویو میں، مسٹر اوباما نے اسرائیلی رہنما پر زور دیا تھا کہ امن کے حصول اور سمجھوتے تک پہنچنے کے موقع کو ہاتھ سے نہ گنوایا جائے، جس کے باعث اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی۔

مسٹر نیتن یاہو نے ایک اسرائیلی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو بتایا کہ وہ سمجھوتا کرنا چاہتے ہیں، 'لیکن یہ سمجھوتا بہترین نوعیت کا ہونا چاہیئےٗ۔ اسرائیلی سربراہ نے کہا کہ، 'میں دبائو میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا'۔

ایسے میں جب وائٹ ہائوس میں اُن کی ملاقات ہوئی، مسٹر اوباما اور مسٹر نیتن یاہو نے ایران کے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کےایک طویل مدتی سمجھوتے کے لیے مغربی ممالک، روس اور چین کی طرف سے جاری کوششوں پر گفتگو کی۔

اسرائیلی رہنما نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، جس کے نتیجے میں یہودی ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے گذشتہ جولائی میں مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے نئے مرحلے کی شروعات کی،جس کا ہدف یہ تھا کہ اگلے ماہ تک ایک حتمی سمجھوتا طے پاجائے۔ تاہم، مذاکرات تعطل کو مد نظر رکھتے ہوئے، اوباما انتظامیہ نے اس ہدف پر نظر ثانی کی۔

'بلوم برگ ویو' میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں، اوباما نے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ فلسطینوں کے ساتھ ایک حتمی سمجھوتا طے کرنے کا 'وقت ہاتھوں سے جا رہا ہےٗ۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر امن مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو امریکہ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف اٹھنے والے سوالات کا دفاع نہیں کرسکتا، جس میں بائیکاٹ اور سفارتی تنہائی کا بڑھتا ہوا خطرہ شامل ہے۔

تاہم، نیتن یاہو نے واشنگٹن روانہ ہونے سے قبل نامہ نگاروں کو بتایا کہ سمجھوتا طے کرنے کے سلسلے اسرائیل 'مختلف نوعیت کے دبائوٗ کی مخالفت جاری رکھے گا۔

مارچ 17 کو صدر اوباما فلسطینی وزیر اعظم محمود عباس کے ساتھ وائٹ ہائوس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔