سکیورٹی کےحصول میں اختلاف رائے، اوباما کا دورہٴ سعودی عرب

فائل

ایک تجزیہ کار کے مطابق، گذشتہ سال کیمپ ڈیوڈ میں امریکہ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے بعد امریکہ اور خلیج کے ملکوں کے درمیان تعاون کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ تاہم، ’’مراسم کو بہتر بنانے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے‘‘

صدر براک اوباما اور سعودی عرب کے بادشاہ، سلمان ملاقات کرنے والے ہین، ایسے میں جب امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں کشیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے، اور جب انسداد دہشت گردی اور علاقائی تنازعات سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں طویل مدتی اتحادیوں کو خاصی نااتفاقی کا سامنا ہے۔

اوباما بدھ کے روز ریاض میں سعودی بادشاہ کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں۔ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ اُن کا سعودی عرب کا چوتھا دورہ ہے۔

وہ جمعرات کو خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے، جو چھ خلیجی ریاستوں کا اتحاد ہے، جس کے رکن سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور اومان ہیں۔

تاہم، ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کا انسداد اور خطے میں استحکام لانے کی ترجیحات اور حکمتِ عملیوں کے سلسلے میں دونوں کے مابین بنیادی اختلاف رائے ہے، جب کہ اُنھیں کلیدی چیلنج درپیش ہیں۔

امریکہ اور زیادہ تر یورپ کو داعش اور القاعدہ خطے اور دنیا بھر کے لیے خطرے با باعث ہیں۔ حالانکہ متعدد خلیجی ریاستوں کے لیے اصل خطرہ ایران اور اُن گروپوں سے ہے جو ایران کے حامی ہیں، مثلاً شام کے صدر بشار الاسد اور یمن کے شیعہ حوثی باغی۔

سنی اکثریت کی آبادی والے ملک، سعودی عرب کی قیادت میں حوثیوں کے خلاف مہنگی ترین فوجی مداخلت عمل میں آئی ہے۔

اینتھونی کارڈسمن ’سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز‘ میں حکمت عملی کے عنوان پر ’الیگ برک چیئر‘ کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’تقریباً تمام عرب ملکوں میں، اسد کم از کم داعش کی طرح کا ہی ایک سخت خطرہ ہیں۔ ایران اور شیعہ اکثریت والا عراق دولت اسلامیہ سے بھی زیادہ شدید مسئلہ ہے۔ اور یمن میں حوثی، ایران اور جزیرہ نما عرب کی القاعدہ (اے کیو اے پی) درپیش بڑے خطرات ہیں‘‘۔
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ اوباما اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہان اُس طریقہ کار کو زیر غور لائیں گے جن سے تعاون بڑھایا جاسکتا ہے اور اُن کی پالیسیوں اور انداز کو باہمی مفادات کے ساتھ ’’نتھی‘‘ کرنا ہوگا، مثال کے طور پر دہشت گردی کا انسداد اور یمن اور شام جیسے مقامات پر امن اور استحکام کو فروغ دینا۔

ایک انٹرویو جس میں امریکہ سعودی عرب تعلقات کے بارے میں سوالات ہوئے، أوباما نے کہا کہ داعش کے خلاف لڑائی میں سعودی عرب ’مفت کے مزے لوٹ رہا ہے‘ یعنی سعودی عرب خرچہ برداشت کیے بغیر امریکی سکیورٹی کے حصار سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اُنھوں نے ’دِی ایٹلانٹک‘ کو بتایا کہ سعودی عرب کو سیکھنا ہوگا کہ اُسے ایران کے ساتھ گزارہ کرنا ہے، جس کے لیے ’ہمسایہ مضافات میں شراکت کا درس‘ شامل ہے۔

وائٹ ہاؤس کے اہل کاروں نے یہ نہیں بتایا آیا ’دِی ایٹلانٹک‘ کے انٹرویو کے بیان کا معاملہ صدر اور بادشاہ کی مجوزہ ملاقات کے دوران زیرِ غور آئے گا۔

قومی سلامتی کے معاون مشیر، بین رہوڈز نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’داعش کے درپیش خطرے کی نوعیت کسی ایک ملک کو ہدف بنانے تک محدود نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دولت اسلامیہ تمام دنیا کے لیے خطرے کا باعث بنی ہوئی ہے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ سال کیمپ ڈیوڈ میں امریکہ اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے بعد امریکہ اور خلیج کے ملکوں کے درمیان تعاون کی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ تاہم، ’’مراسم کو بہتر بنانے کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔‘‘

روب مالے، وائٹ ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بارے میں رابطہ کار ہیں۔ اُنھوں نے موجودہ امریکہ سعودی تعلقات کو ’’پیچیدہ‘‘ قرار دیا ہے۔