جی ایٹ کانفرنس اور امریکی کردار

جی ایٹ کانفرنس اور امریکی کردار

دنیا کی آٹھ اقتصادی طاقتوں کے سربراہ فرانس میں جی ایٹ اجلاس کے دوران رکن ملکوں میں موجود اختلافات ختم کرکے عالمی اقتصادی اور سیاسی مسائل کے حل کی کوشش کر رہے ہیں ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اپنی اقتصادی مشکلات کے باوجود عالمی معاملات پر قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔

صدر اوباما نے جی ایٹ کانفرنس میں شرکت کے لئے فرانس پہنچنے پر سب سے پہلی ملاقات روس کے صدر دمتری میدویدیف سے کی ہے ۔ امریکہ 2020ء تک مشرقی اور مرکزی یورپ میں میزائل شکن دفاعی نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اوباما انتظامیہ کی جانب سے بار بار اس یقین دہانی کے بعد بھی کہ امریکہ اسلحے کی ایک نئی دوڑ نہیں چاہتا ۔روس کو فکر ہے کہ یہ نظام روس کی ایٹمی طاقت کے لئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔ روسی صدر دمتری میدویدیف کہتے ہیں کہ روس اور امریکہ میں کچھ معاملات پر اختلاف ہو سکتا ہے ۔

روسی صدر یہ بھی کہتے ہیں کہ میزائل دفاعی نظام کا معاملہ دونوں ملکوں کی مستقبل کی قیادت طے کرے گی لیکن وہ اور صدر اوباما ابھی اس کے حل کی بنیاد ضرور رکھ سکتے ہیں ۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم نے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے ،تاکہ ہم دونوں ملکوں کی دفاعی ضروریات کے بارے میں کسی سمجھوتے پر پہنچ سکیں ۔ جس سے طاقت کا توازن قائم رہے اور جو مشترکہ خطرات سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو۔

اس سے پہلے صدر اوباما نے لندن میں برطانوی قیادت اور شاہی خاندان سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے کئی معاملات پر بات کی ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بڑے معاملے پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔

امریکن فارن پالیسی کونسل کے اسکالر لارنس ہس کہتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان سوائے اس بات کے کوئی اختلاف نہیں کہ برطانیہ ایک آزاد فلسطین کی قرارداد کا حامی ہے جکہ امریکہ نہیں ۔ مگر اس کے سوا اب تک دونوں ملکوں نے عراق اور افغانستان میں بھی ایک دوسرے سے مل کر کام کیا ہے ۔ اور بظاہر ان کے درمیان اہم معاملات پر مکمل ہم آہنگی نظر آتی ہے ۔

http://www.youtube.com/embed/6bu9z6F3QK0

واشنگٹن میں ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی معاشی مشکلات عالمی سطح پر اس کے قائدانہ کردار کو متاثر نہیں کر سکتیں لیکن صدر اوباما کو اپنے پیشرو صدر بش کے جارحانہ کردار کا تاثر زائل کرنے کے لئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

لارنس ہس کا کہناہے کہ صدر اوباما کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کو ساتھ لے کر بھی چلیں اور کہیں کہیں امریکہ کو پیچھے رکھ کے کسی دوسرے اتحادی ملک کو زیادہ اہم کردار ادا کرنے دیں ۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ دنیا میں کوئی بڑی پیش رفت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک امریکہ قدم نہیں بڑھاتا ۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کی کوشش ہے کہ جی ایٹ کے رکن ملکوں کو مصر ،تیونس سمیت مشرق وسطی کے ان ملکوں کی مدد پر تیار کیا جائے ، جو جمہوری نظام لانے پر تیار ہو ۔

لارنس ہس کے مطابق عالمی مسائل کے حل کے لئے امریکہ اب پہلے جیسی امداد نہیں دے سکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ کا کردار کمزور ہوجائے گا ۔ صدر اوباما نے آج واضح کیا کہ امریکہ زوال کا شکار نہیں ہے اور امریکہ کو آزادیوں اور جمہوریت کی کامیابی کے لئے قاعدانہ کردار ادا کرنا ہے خصوصا اس وقت جب کہ مشرق وسطی میں صورتحال اس قدر خراب ہے ۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ سمیت جی ایٹ کے رکن ملک اپنے معاشی مسائل کی وجہ سے مصر، تیونس اور لیبیا میں قیام جمہوریت کے لئے شائد اتنی رقم جمع کرنے میں کامیاب نہ ہوں جتنی کی ضرورت ہے مگر صدر اوباما پر لیبیا میں فوجی کارروائی ختم کرنے کے لئے اندرون ملک فوری نوعیت کا دباؤ نہیں ہے ۔