نیویارک: سکھ پولیس والوں کو ’پگ‘ اور داڑھی کی اجازت

فائل

سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے پولیس اہل کاروں کو ’یونیفارم‘ کے ساتھ پگڑی اور داڑھی کی اجازت ہوگی۔ لیکن، شرط یہ ہے کہ وردی کا رنگ ’نیوی بلو‘ ہونا چاہیئے، بالوں کو ’’خوبی‘‘ کے ساتھ پگڑی کے اندر ڈھالا جائے، اور داڑھی آدھے انچ سے زیادہ لمبی نہ ہو

نیو یارک محکمہٴ پولیس میں بدھ کے روز 557 نئے پولیس اہل کاروں نے عہدے کا چارج لیا، جب کہ اُسی روز سے لباس کے نئے ضابطوں کا نفاذ عمل میں آیا۔

سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے پولیس اہل کاروں کو ’یونیفارم‘ کے ساتھ پگڑی اور داڑھی کی اجازت ہوگی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وردی کا رنگ ’نیوی بلو‘ ہونا چاہیئے، بالوں کو ’’خوبی‘‘ کے ساتھ پگڑی کے اندر ڈھالا جائے، اور داڑھی آدھے انچ سے زیادہ لمبی نہ ہو۔

بدھ کے روز مڈیسن اسکوائر گارڈن میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، پولیس کمشنر، جیمز اونیئل نے کہا کہ ’’اگر مجھے اعداد و شمار صحیح یاد ہیں، تو تقریباً 160 اہل کاروں کا تعلق سکھ برادری سے ہے، اور پالیسی میں اِس تبدیلی کے بعد مجھے توقع ہے کہ مزید افراد محکمے میں شامل ہوں گے‘‘۔

اس سے قبل، سکھ افسران ’پولیس کیپ‘ کے نیچے ’پٹکا‘ پہن سکتے تھے۔

نئی ہدایات کے تحت، نیو یارک محکمہٴ پولیس نےکیلی فورنیا کے شہر، ’رورسائیڈ‘ اور واشنگٹن ڈی سی کی طرح اور امریکی بَری فوج نے طبی یا مذہبی بنیاد پر پگڑی اور داڑھی کی اجازت دے رکھی ہے۔

اونیئل نے کہا کہ ’’یہ اہم تبدیلی‘‘ محکمے کو اس قابل بنائے گی کہ اس میں ممکنہ حد تک تنوع پیدا ہو سکے۔

’سکھ آفیسرز ایسو سی ایشن‘ کے صدر، پولیس اہل کار گرویندر سنگھ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ پالیسی میں تبدیلی سے پہلے سابق کمشنر سے گفت و شنید جاری رہی، جسے کمشنر اونئیل کے وقت میں حتمی شکل دی گئی ہے۔

بقول اُن کے، ’’ہماری سکھ برادری کے لیے یہ ایک عظیم اور قابلِ فخر لمحہ، ایک بڑا لمحہ ہے‘‘۔

سنگھ نے کہا کہ خدا کی تخلیق کی حرمت کا تقاضا ہے کہ سکھ اپنے بال نہ کاٹیں۔

اُن کے بقول، ’’آپ اِس دنیا سے اس طرح اٹھائے جائیں جس طرح آپ دنیا میں آئے تھے‘‘۔

سکھ دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے جس کے ماننے والوں کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ ہے۔ اس مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ’’بے انصافی کے خلاف لڑنا مقدس ذمہ داری ہے‘‘۔