عالمی سطح پر آزادیٔ صحافت کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ایک ادارے نے جمعرات کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں صحافیوں کو حراست میں لیے جانے والے واقعات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور خواتین صحافیوں کو زیر حراست رکھنے کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔
میڈیا کے عالمی نگران ادارے 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' (آر ایس ایف) نے 2021 میں اب تک آزادی صحافت کے خلاف ہونے والے واقعات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ رواں برس صحافیوں کی حراست کے واقعات میں 20 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
رواں برس جن 488 صحافیوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا ان میں سے 60 خواتین بھی تھیں۔
ادارے کے مطابق خواتین صحافیوں کی گرفتاریوں میں اضافہ 1995 کے بعد سے جب سے 'آر ایس ایف' اعداد و شمار جمع کرنے کرنے شروع کیے ہیں، اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔
جن صحافیوں کو قید کیا گیا ان میں سے کچھ کا تعلق 'یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا' کے تحت چلنے والے خبر رساں اداروں سے بھی تھا۔ یاد رہے کہ اسی ایجنسی کے تحت وائس آف امریکہ کی سروسز بھی کام کر رہی ہیں۔
آر ایس ایف کے مطابق دنیا بھر میں جہاں خواتین صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہیں ان پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
SEE ALSO: اسانج کو امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے، برطانوی عدالتآر ایس ایف کی ایڈیٹر ان چیف پاؤلین ایڈس میول نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "آج خاتون صحافی ہونا آپ کو حملوں سے نہیں بچاتا۔ خواتین کی بڑی تعداد نے نیوز روم کو جوائن کیا ہے اور اسی وجہ سے زیادہ خواتین آج قید ہیں۔"
رواں برس بیلاروس اور میانمار میں قیدیوں کی حراست میں اضافے کی وجہ سے یہ دونوں ممالک صحافیوں کو قید کرنے میں سرِفہرست پانچ ممالک میں شامل ہیں۔
آر ایس ایف کے مطابق چین مسلسل پانچویں برس صحافیوں کو قید کرنے کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ جہاں 19 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا جن میں ایک صوفیہ ہوانگ چیقن بھی ہیں جو تحقیقاتی صحافی ہیں اور جو چین میں 'می ٹو' مہم پر پورٹنگ کے لیے معروف ہیں۔
صوفیہ ہوانگ کو ریاست کے خلاف شہریوں کو اکسانے کے الزام میں ستمبر میں حراست میں لیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے ہی گلمیرا امین کو علیحدگی پسندی کے الزام کے تحت طویل عرصے سے قید میں رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایغور مسلمانوں کے متعلق خبر رساں ویب سائٹ چلانے والی سالکن کو 2009 سے قید میں رکھا گیا ہے۔
اسی طرح زہانگ زین کو ووہان میں مئی 2020 سے کرونا وائرس کی ابتدا سے متعلق کوریج کی وجہ سے قید میں رکھا گیا ہے۔
آر ایس ایف کو دستیاب معلومات کے مطابق زہانگ لڑائی جھگڑے اور نقص امن جیسے الزامات کے تحت چار برس قید کی سزا کے خلاف بھوک ہڑتال کی وجہ سے شدید علیل ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے زہانگ کی قید اور ان کی صحت سے متعلق ایک بیان میں تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔
آر ایس ایف نے زہانگ کو نومبر کے مہینے کے لیے بہادر صحافی کے ٹائٹل سے نوازا ہے۔
SEE ALSO: عدالتی حکم پر وزیرِ اعظم کی لاپتا صحافی مدثر نارو کی والدہ اور بیٹے سے ملاقاتاسی طرح بیلاروس میں 32 صحافیوں کو قید میں رکھا گیا ہے جن میں 17 خواتین شامل ہیں۔ حکام کی جانب سے اگست 2020 میں لوکاشینکو کے صدارتی انتخاب کے بعد سے صحافیوں کی قید و بند کی صعوبتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
بیلاروس کے ٹی وی چینل 'بیلساٹ ٹی وی' کی داریہ چلٹسووا اور کاٹسیارینا اینڈریوا کو ایک احتجاج کی کوریج کرنے پر دو دو برس کی قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
میانمار میں رواں برس فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 53 صحافیوں کو قید میں رکھا گیا ہے۔ ان میں ما توزار بھی شامل ہیں جو فوج کے خلاف مظاہروں کی کوریج کے الزام میں ستمبر سے حراست میں ہیں۔
آر ایس ایف کے مطابق جہاں دنیا بھر میں صحافیوں کی قید و بند میں اضافہ ہوا ہے وہیں ان کی ہلاکتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس برس 46 صحافی اور میڈیا ورکروں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جو پچھلے 20 برس میں سب سے کم تعداد ہے۔