رسائی کے لنکس

ونود دُوا: سرائیکی بولنے والے والدین کے ہندی پتر کار بیٹے


بھارت کے معروف صحافی اور تجزیہ کار ونود دُوا (ونود دعا) طویل علالت کے بعد ہفتے کی شام نئی دہلی میں انتقال کر گئے، اُن کی عمر 67 برس تھی۔

ان کی بیٹی اور مشہور کامیڈین ملیکا دُوا نے بتایا کہ ان کے والد کو جگر میں انفیکشن کی وجہ سے چند روز قبل اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہ پانچ روز تک نئی دہلی کے اپولو اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ (آئی سی یو) میں داخل تھے۔ ملیکا نے جمعرات کو کہا تھا 'میرے والد ٹھیک نہیں ہیں'۔ پھر انہوں نے ہی ہفتے کی شام کو اُن کے انتقال کا اعلان کر دیا۔

ملیکا نے اپنے انسٹاگرام پر لکھا "ہمارے نڈر اور غیر معمولی والد ونود دُوا کا انتقال ہو گیا ہے۔ انہوں نے ایک منفرد زندگی گزاری۔ دہلی کی مہاجر کالونی سے اپنی زندگی کی شروع کرنے والے 42 برس تک صحافت کے عروج پر پہنچ کر ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑے رہے۔"

اس سے پہلے رواں برس جون میں ہی ونود دُوا کی اہلیہ ڈاکٹر پدما وتیجو بھی کرونا وائرس کے باعث جان کی بازی ہار گئی تھیں۔

ونود دُوا بھارت کے سرکاری ٹیلی ویژن دُور درشن اور ایک اہم نجی ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی انڈیا سے کئی برس تک وابستہ رہے۔ این ڈی ٹی وی انڈیا کے شو 'ذائقہ انڈیا کا' نے عوامی حلقوں میں خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔

وہ گزشتہ چند برس سے ایک فری لانس صحافی کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے رہے۔ اُنہیں بھارت میں نڈر اور بے باک صحافت کا علم بردار سمجھا جاتا تھا۔

بی جے پی حکومت کے ناقد

موجودہ بھارتی حکومت کے ناقدین کے ہراول دستے میں شمار ہونے کے باعث انہیں کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اور حامیوں نے کئی مقدمات درج کرائے۔ ان میں سے ایک مقدمہ بی جے پی کے ایک مقامی رہنما کمار سین نے چھ مئی 2020 کو ریاست ہماچل پردیش میں اُن کے یو ٹیوب چینل پروگرام میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کے حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ملک سے غداری اور دیگر دفعات کے تحت درج کرایا تھا۔

بعد ازاں دہلی پولیس نے بی جے پی کے ترجمان نوین کمار کی شکایت پر جس میں دوا پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ یو ٹیوب چینل پر پیش کیے جانے والے اپنے پروگرام 'ونود دُوا شو' کے ذریعے فیک نیوز یا جعلی خبریں پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔

لیکن دُوا نے بھارتی سپریم کورٹ میں اُن پر کی جانے والی کارروائی کےخلاف درخواست دائر کر دی اور اس پر سماعت کے دوراں یہ مؤقف اختیار کیا کہ حکومت پر تنقید اُس وقت تک غداری نہیں ہے جب تک کہ اس کی وجہ سے تشدد نہ پھوٹ پڑے۔

رواں برس جون میں سپریم کورٹ نے دوا کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر الزامات کے تحت دائر مقدے کو خارج کر دیا۔

دوا 11 مارچ 1954 کو پیدا ہوئے تھے۔ اُن کا بچپن دہلی کی رفیوجی بستیوں میں گزرا تھا۔ ان کے والدین سرائیکی ہندو تھے جو تقسیمِ ہند کے بعد اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا سے ہجرت کر کے بھارت آ گئے تھے۔

ابتدائی تعلیم دہلی کے اسکولوں میں حاصل کرنے کے بعد دوا نے دارالحکومت کے ہنس راج کالج سے انگریزی لٹریچر میں ڈگری حاصل کی اور دہلی یونیورسٹی سے ہی انگریزی ادب ہی میں ماسٹرز کیا تھا۔

انہوں نے نومبر 1974 میں پہلی بار دور درشن کے دہلی اسٹیشن جو اُن دنوں دہلی ٹیلی ویژن کہلاتا تھا سے دکھائے جانے والے نوجوانوں کے پروگرام 'یوا منچ' میں حصہ لے کر اپنی صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔

وہ الیکٹرانک میڈیا کے پہلے صحافی تھے جنہیں باوقار 'رام ناتھ گوئنکا ایکسیلنس ان جرنلزم ایوارڈ' سے نوازا گیا۔ 2008 میں انہیں صحافت میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعتراف میں حکومت ہند کی طرف سے چوتھے اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ 'پدم شری' سے نوازا گیا۔

انہیں ممبئی پریس کلب نے 2018 میں 'ریڈ انک ایوارڈ' سے نوازا تھا۔ یہ اعزاز انہیں صحافت میں ان کی زندگی بھر کی کامیابیوں پر دیا گیا۔

ان کے انتقال پر بھارت اور اس کے باہر مختلف حلقوں بالخصوص صحافتی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر سوگ منایا جا رہا ہے۔

مشہور شاعر جاوید اختر نے ٹوئٹ کر کے اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا 'ونود جی، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ آپ ہمارے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ اس وقت ہمیں آپ کی بے حد ضرورت تھی اور آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ محترم ،ہم کروڑوں ہندوستانی آپ کو ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔"

معروف بھارتی صحافی راجدیب سردیسائی نے ٹوئٹ کی کہ ونود دُوا نے صحافت میں نئے معیار قائم کیے۔ وہ سیاست، کھیل، شاعری، میوزک سمیت ہر موضوع پر گفتگو کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔

سرکردہ صحافی اور این ڈی ٹی وی کے بانی پرنائے رائے نے کہا ونود دُوا اپنے وقت کے عظیم ترین صحافی تھے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG