امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر سال 2015 میں عالمی طاقتوں کے تہران کے ساتھ معاہدے سے دستبرداری کے اعلان پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ تہران کو ہوگا تاہم بعض کے بقول مغربی ممالک جو اس وقت معاہدے کی پاسداری کا اعادہ کر رہے ہیں، ممکن ہے کہ ایران کو امریکہ کی ایما پر نئے کسی معاہدے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کریں۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں سینٹر فار گلوبل پالیسی سے وابستہ سینسر فیلو کامران بخاری، تھنک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں ایشیا پروگرام کے سربراہ معید یوسف، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر زبیر اقبال، تہران میں شعبہ تدريس اور صحافت سے وابستہ ڈاکٹر راشد نقوی اور پاکستان کے سابق سفیر مشتاق احمد مہر نے امریکہ کی ایران کے ساتھ معاہدے سے دستبرداری پر مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا۔
ایمبیسیڈر مشتاق احمد مہر کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چین روس اور ایران کے تعلقات اور مفادات میں کایا پلٹ کو نہیں سمجھ پا رہا۔ اس طرح کا دباؤ اب تہران پر کار گر نہیں رہا۔ اگر معاہدے میں تبدیلی مقصود تھی بھی تو معاہدے کے اندر رہتے ہوئے اس کو’’ ری انفورس‘‘ کیا جانا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ کو ایران کے اندر انفراسٹرکچر میں دلچسپی ہے۔ وہ پہلے کی طرح امریکہ کو روس یا ایران کے خلاف بلینک چیک نہیں دے گا۔
کامران بخاری نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ شروع دن سے ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے معاہدے کو کمزور سمجھتی تھی۔ پھر اس معاہدے میں تبدیلی یا دستبرداری انتخابی وعدہ تھا اور اس سے نکلنے کا ایک اہم مقصد ایران کے مشرق وسطی میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا تھا۔ ان کے بقول موخرالذکر مقصد میں کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کا تعین وقت کرے گا مگر یہ ضرور ہے کہ جو یورپی ملک اس وقت تہران کے ساتھ کھڑے ہیں وہ آئندہ امریکہ کی ایما پر کسی نئے معاہدے کے لیے ایران پر زور دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب کے لیے امریکہ اور ایران میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو واشنگٹن کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔ کامران سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایسی پیش رفت ہو سکتی ہے جس سے امریکہ کو اس معاہدے سے نکلنے کا اس قدر نقصان نہ ہو جتنا خیال کیا جا رہا ہے۔
تہران سے ڈاکٹر راشد نقوی نے کہا کہ ایران کی قیادت اور عوام کو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ذرا برابر حیرت نہیں ہوئی۔ صدر حسن روحانی اور سپریم کمانڈر واضح کر چکے ہیں کہ ان کا ملک اپنے جوہری پروگرام پر کوئی نیا معاہدہ نہیں کرے گا۔
ڈاکٹر معید یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایران کو اس حد تک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ عالمی طاقتوں میں اس وقت دراڑ پڑ چکی ہے۔ لیکن ان کے بقول ابھی معاملات شروع ہوئے ہیں۔ جرمن چانسلر انگلا مرخل واشنگٹن سے بات کرنے والی ہیں۔ یورپی ملکوں کے امریکہ کے ساتھ گہرے مفادات وابستہ ہیں وہ ایران کے لیے امریکہ سے لڑائی تو بالکل کرنے سے رہے۔ جہاں تک امریکہ کی ساکھ کا سوال ہے، معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے، تو وہ ضرور متاثر ہوئی ہے۔ اب تو افغان طالبان بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ اگر کوئی معاہدے کریں تو کیا بھروسا ہے کہ وہ اس پر قائم بھی رہے گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال نے معید یوسف کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے واشنگٹن کے نکلنے سے تہران کی ساکھ بہتر ہو گی۔ دنیا کہے گی کی دیکھیں تہران نے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی، امریکہ نے کی ہے۔