شمالی کوریا کے جوہری تجربے سے عالمی تشویش میں اضافہ

جنوبی کوریا کی جانب سے جاری کی گئی اس تصویر میں شمالی کوریا کے بیلسٹک میزائل تجرے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

دنیا اس بارے میں غور کر رہی ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے اتوار کےر وز کے اس تازہ ترین جوہری تجربے پر کس طرح رد عمل ظاہر کرے جو 2006 سے اس کا چھٹا اور سب سے طاقتور تجربہ تھا۔

پیانگ یانگ نے اقوام متحدہ کی نئی پابندیوں کے باوجود ،جس کی منظوری اس کے قریب ترین اور سب سے مضبوط اتحادی چین نے بھی دی تھی، یہ تجربہ کر کے تمام بین الاقوامی انتباہوں کو نظر انداز کیا ہے۔

اتوار کے روز شمالی کوریا کے تجربے میں استعمال کئے گئے بم نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا جو پیانگ یانگ کے سابقہ تجربوں میں استعمال کیے گئے بموں سے زیادہ طاقتور تھا ۔ بین الاقوامی برادی اس بارے میں بحث کر رہی ہے کہ شمالی کوریا کی سرتابی کو کیسے روکا جائے۔ سی ٹی بی ٹی او کی ایکزیکٹیو سیکرٹری لسینا زربو کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل بہت سی پابندیاں نافذ کر چکی ہے اور پابندیاں بظاہر شمالی کوریا کو اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے حوالے سے قابل قبول حددو سے پار جانے سے نہیں روک رہے ۔ اب ہم کیا کریں ، یہ غالباً ایک ملین ڈالر کا سوال ہے۔

ٹرمپ چین سے کہہ چکے ہیں کہ وہ پیانگ یانگ کے جوہری عزائم کچلنے کےلیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے، لیکن اتوار کے روز انہوں نے ٹویٹر پر کہا کہ چین کو بہت کم کامیابی حاصل ہوئی ہے اور یہ کہ شمالی کوریا بیجنگ کے لیے ایک پریشانی بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک راستہ جس پر وہ غور رکرہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان تمام ملکوں سے تجارت بند کر دی جائے جو شمالی کوریا کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ۔ اس میں یقینی طور پر چین بھی شامل ہو گا جو شمالی کوریا کا قریب ترین اتحادی اور اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

بیجنگ کی پیکنگ یونیورسٹی میں جزیرہ نما کوریا کی اسٹیڈیز سے متعلق سنٹر کے تجزیہ کار ، ڈانگ گل کم کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کا تجربہ چین اور امریکہ کے درمیان ایک فاصلہ ا ور شمالی کوریا کے معاشرے کے اندر اختلاف پیدا کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ان کشیدگیوں کو ہوا دی ہے۔

چینی لوگوں اورحکومت کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے جنوبی کوریا میں دفاع کا ایک جدید ترین سسٹم نصب کئے جانے سے جنگی نوعیت کا توازن ٹوٹ گیا ہے ۔ اور اس عمل میں جنوبی کوریا امریکہ کی طرف ہو گیا ہے جس سے چین اور جنوبی کوریا کے درمیان اور چین اور امریکہ کے درمیان بھی قدرتی طور پر فاصلہ بڑھ گیا ہے ۔ اس لیے شمالی کوریا کے لیے یہ حکمت عملی کے اعتبار سے ایک بڑی کامیابی ہے۔

چینی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیار تیار کرنے کےلیے اس وجہ سے بے تاب ہے کہ وہ خود کو دشمنوں میں گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ جاپان اور جنوبی کوریا کو پیانگ یانگ کے ساتھ گفت و شنید میں اضافے اور شمالی کوریا کے سلامتی سے متعلق خدشات میں کمی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ٹرمپ نے ٹویٹر پر کہا کہ شمالی کوریا پر نرم پالیسی کار گر نہیں ہوتی اور انہوں نے کہا کہ وہ اپنے فوجی عہدے داروں سے دوسرے راستوں پر بات کریں گے ۔

بیشتر مغربی راہنما کہتے ہیں کہ جزیرہ نما کوریا کے لئے کوئی فوجی راستہ نہیں ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ بورس جونسن کہتے ہیں کہ شمالی کوریا اور سول کے درمیان فاصلہ بہت ہی کم ہے۔ وہ بنیادی طور پر صرف روائتی ہتھیاروں ہی کے ذریعے جنوبی کوریا کی آبادی کے بڑے بڑے حصوں کو تباہ کر سکتا ہے ۔ا س لئے دھمکی اور اس پر عمل کرنا در حقیقت بہت آسان نہیں ہے۔

یورپی یونین کے راہنما پیانگ یانگ کے خلاف سخت تر اقتصادی پابندیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے پیانگ یانگ کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں کے طور پر چین اور روس پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔