امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے دفتر کی طرف سے ایک میڈیا نوٹ جاری کیا گیا ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن، جاپانی وزیر خارجہ حیاشی یوشیماسا، اور جنوبی کوریا کی وزیر خارجہ پارک جن کا مشترکہ بیان شامل ہے ۔ بیان کےمطابق امریکہ ، جنوبی کوریا، اور جاپان نے 12 جولائی 2023 کو شمالی کوریا کی طرف سے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) تجربے کی شدید مذمت کی ہے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی واضح اور صریح خلاف ورزی ہے اور جزیرہ نما کوریا اور اس سے باہر کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ شمالی کوریا کی جانب سے اس میزائل کی لانچ سے علاقے میں شہری ہوا بازی اور سمندری ٹریفک کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں گے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر مکمل طور پر عمل درآمد ہو جن کے تحت شمالی کوریا کے خلاف پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
بیان میں امریکہ نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ جنوبی کوریا اور جاپان کے دفاع کے لیے اس کے وعدے پکے ہیں اور اسکے لئے تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے گا، جن میں جوہری صلاحیت بھی شامل ہے ۔
تینوں ممالک شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل خطرات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے سہ فریقی سیکورٹی تعاون کو مزید مضبوط کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ جنوبی کوریا اور جاپان شمالی کوریا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے غیر قانونی اور اشتعال انگیز اقدامات کو روکے اور فوری طور پر مذاکرات کی طرف آئے ۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر کِم سونگ نے جمعرات کو اپنے ملک کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے حالیہ میزائل لانچ کا دفاع کیا جہاں انہوں نے امریکہ پر شمال مشرقی ایشیا کی صورتحال کو "جوہری جنگ کے دہانے پر لے جانے' کا الزام بھی لگایا۔ان کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جمعرات کے روز ہونے والے اجلاس سے خطاب کو 'غیر معمولی' قرار دیا جا رہا ہے ۔
کِم سونگ نے کونسل کو بتایا کہ ہوا سونگ۔ 18 میزائل کی بدھ کے روز آزمائشی پرواز اپنے دفاع کے حق میں کی جانے والی ایک جائز مشق تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جوہری خطرات کے ساتھ علاقائی کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے اور چودہ برس میں پہلی بار جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز جنوبی کوریا میں تعینات کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں جنوبی کوریا کے سفیر ہوانگ جون کک نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’آئی سی بی ایم ( انٹر کونٹی نینٹل بیلسٹک میزائیل ) کی لانچ کو پڑوسی ممالک کیسے محفوظ خیال کر سکتے ہیں ؟ ‘‘
سفارت کاروں نے کہا کہ2017 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ شمالی کوریا کے کسی سفارت کار نے سلامتی کونسل سے خطاب کیا ہے ۔
ہوانگ نے کہا کہ شمالی کوریا کی جانب سے بیلسٹک میزائیلوں کی بار بار لانچ سے ان کے ملک کو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہتھیار رکھنے کے اپنے مقصد کی طرف بڑھنے کا اختیار ملتا ہے اور اپنی ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا موقع مل جاتا ہے۔
اس میٹنگ سے فورا ًپہلے امریکہ ، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت کونسل کےدس ارکان کے ایک بیان کو صحافیوں کو سنایا گیا تھا جس میں شمالی کوریا کی اس لانچ کی ’’ممکنہ طور پر سخت ترین الفاظ ‘‘ میں مذمت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ رواں سال میں بیلسٹک میزائل کا بیسواں تجربہ تھا اور یہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی تھی جو اس طرح کے ٹیسٹوں پر پابندی عائد کرتی ہیں۔
پیانگ یانگ میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ نے، جنہیں بےحد با اثر سمجھا جاتا ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے اجلاس بلانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے ملک کے اپنے دفاع کیلئے اٹھائے جانے والے اقدام پر ’’ تنازعہ آرائی ‘‘ کے مترادف ہے جبکہ جوہری جنگ کے خطرے کو بڑھانے کے لیے امریکی دباؤ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
کم یو جونگ نے سرکاری میڈیا کے ذریعے دیے گئے ایک بیان میں سلامتی کونسل کو ’’سرد جنگ کا ایک نیا میکنزم قرار دیا جو مکمل طور پر امریکہ اور مغرب کی طرف مائل ہے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ امریکہ کو شمالی کوریا کے ساتھ دشمنی کی قیمت چکانا پڑے گی۔ انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی لیکن اپنے ملک کی جوہری ڈیٹرنس کی صلاحیت کو بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
سلامتی کونسل نے 2006 میں شمالی کوریا کے پہلے جوہری تجربے کے بعد اس کے خلاف پابندیاں عائد کی تھیں اور بعد میں آنے والے برسوں کے دوران دس قراردادوں کے ذریعے ان کو سخت کیا گیا تھا۔ تاہم ان پابندیوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
پابندیوں کی آخری قرارداد دسمبر 2017 میں سلامتی کونسل کی طرف سے منظور کی گئی تھی اور چین اور روس نے مئی 2022 میں امریکہ کے زیر اہتمام پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا جس میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائل لانچ کے سلسلے میں نئی پابندیاں عائد ہو نا تھیں ۔
ویٹو کا اختیار رکھنے والے ان دو مستقل ارکان نے اس کے بعد میڈیا کو جاری کیے جانے والے بیانات سمیت کونسل کی کسی بھی کارروائی کو روکا ہے۔
امریکہ سمیت دس ممالک کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل شمالی کوریا کی متعدد اشتعال انگیزیوں پر خاموش نہیں رہ سکتی اور اسے ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے ذمے داروں کو پیغام دینا چاہئیے کہ ’’یہ طرز عمل غیر قانونی اور عدم استحکام پیدا کرنے والا ہے ۔‘‘
بیان میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سائبر کرائم سے آمدن کے حصول کےلیے شمالی کوریا کی غیر قانونی سرگرمیوں کا مقابلہ کریں۔ تاہم روس اور چین نے سلامتی کونسل کی کسی بھی نوعیت کی کارروائی کی مخالفت کی ۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے تازہ ترین میزائل تجربے کا نوٹس تو لیا لیکن شمالی کوریا پر بڑھتے ہوئے امریکی فوجی دباؤ اور جزیرہ نما کوریا میں اسٹریٹجک ہتھیار نصب کرنے پر تنقید کی۔
چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ اور دیگر ممالک کا طویل عرصے سے یہ نظریہ رہا ہے کہ شمالی کوریا سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور پابندیوں کے اطلاق نے شمالی کوریا کو ’’ اپنی بقا قائم رکھنے کے دباؤ‘‘ میں ڈال دیا ہےجب کہ اس کے جائز خدشات کو ’’کبھی بھی دور نہیں کیا گیا۔‘‘
ژانگ نے کہا کہ 1990 کی دہائی سے تاریخ واضح طور پر بتاتی ہے کہ کشیدگی کو کم کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اور انہوں نے امریکہ اور شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔
ادھر دس ممالک کے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ پیشگی شرائط کے بغیر سفارت کاری کے لیے پرعزم ہیں۔ شمالی کوریا کے سفیر کِم سونگ نے ان مذاکرات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا جو 2018سے تعطل کا شکار ہیں۔
(اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)