شمالی کوریا نے جمعے کو کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے۔ یہ آٹھ دنوں میں کیا گیا تیسرا تجربہ ہے۔
شمالی کوریا کی طرف سے میزائل تجربات ایسے موقع پر کیے جا رہے ہیں جب جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
شمالی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا کہنا ہے کہ یہ تجربات مقامی وقت کے مطابق صبح تین بجے جنوبی صوبے ہمگیانگ میں کیے گئے۔
شمالی کوریا کا بیلسٹک میزائل 25 کلو میٹر کی بلندی پر 220 کلو میٹر فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق، جمعے کو کیا جانے والا تجربہ کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائل کا تھا، جس سے شمالی امریکہ کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہیں۔
امریکہ نے شمالی کوریا کی طرف سے بدھ کو کیے گئے تجربے پر کوئی رد عمل نہیں دیا تھا۔ تاہم، جولائی کے تیسرے ہفتے میں کیے جانے والے تجربے پر امریکہ کا مؤقف ضرور سامنے آیا تھا۔
شمالی کوریا کی طرف سے آٹھ دنوں میں کیے جانے والے کم از کم چھ تجربات کو امریکہ پر مستقل دباؤ برقرار رکھنے کا عمل قرار دیا جا رہا ہے، خیال رہے کہ چھ روز قبل بھی شمالی کوریا نے کم فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ مشرقی بندر گاہ و انسان کے قریب کیا تھا۔
دارالحکومت پیانگ یانگ کی یہ کوشش ہے کہ ان تجربات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ جوہری تجربات سے متعلق مذاکرات بھی متاثر نا ہوں۔
اقوام متحدہ کا رد عمل
اقوام متحدہ نے شمالی کوریا کے ان تجربات سے متعلق وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ ان تجربات سے آگاہ ہے اور تمام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
شمالی کوریا اقوام متحدہ کو سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق، بیسلٹک میزائل تجربات نا کرنے کا پابند ہے جبکہ واشنگٹن اور سیول ان تجربات کو کم اہمیت دے رہے ہیں، تاکہ شمالی کوریا کے ساتھ جوہری تجربات پر مذاکرات جاری رہ سکیں۔
ٹرمپ کِم ملاقاتیں
جون کے آخری ہفتے میں شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے غیر فوجی علاقے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن نے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کے اور کِم جونگ کے درمیان طے پایا تھا کہ وفود کی سطح پر مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں۔ شمالی کوریا، جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے جزوی اقدامات کے بدلے میں بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی چاہتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے تک پابندیوں میں نرمی کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ لیکن، گزشتہ کچھ عرصے میں امریکی حکام کی طرف سے کچھ لچک کا سامنا کیا گیا ہے۔