پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی کے اردگر اہلکاروں کو تعینات کر کے اس کا دیگر قبائلی علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
اسلام آباد —
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مقصد تمام دہشت گردوں اور اُن کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا اور دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے یہ بیان اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے دورے کے موقع پر شرکا سے خطاب میں دیا۔ فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف کے خطاب کا محور شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے تناظر میں ملک کی اندرونی اور بیرونی صورت حال تھی۔
ادھر شمالی وزیرستان میں ’ضرب عضب‘ آپریشن جاری ہے اور پیر کو فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ شوال کے علاقے میں جیٹ طیاروں سے کی گئی کارروائی میں دہشت گردوں کے چھ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 27 شدت پسند مارے گئے۔
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان کے مطابق جس علاقے میں یہ کارروائی کی گئی وہاں عام قبائلی موجود نہیں تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک روز قبل دیگان-بوئے میں کی گئی فضائی کارروائیاں انتہائی کامیاب رہیں جن میں 140 دہشت گرد مارے گئے جس میں اکثریت ازبک جنگجوؤں کی تھی۔
لیکن آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد اور مارے جانے والوں کی شناخت سے متعلق تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ اس قبائلی علاقے تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی نہیں۔
بیان کے مطابق ایسٹ ترکمانستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور اُن سے منسلک جنگجو بھی فضائی کارروائی میں مارے گئے جب کہ اُن کا ایک مرکزی رابطہ دفتر بھی تباہ کر دیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ آپریشن منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور عام آبادی والے علاقوں میں تاحال کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی کے اردگرد اہلکاروں کو تعینات کر کے اس کا دیگر قبائلی علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
جب کہ شمالی وزیرستان کے تمام علاقوں بشمول میر علی اور میران شاہ میں دہشت گردوں کے تمام اڈوں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق میر علی کے مضافات سے فرار ہونے والے سات دہشت گرد فوج کی کارروائی میں مارے گئے جب کہ اسپیشل سروسز گروپ کے نشانہ بازوں کی کارروائی میں تین دہشت گرد اُس وقت ہلاک ہوئے جب کہ وہ میران شاہ کے قریب ایک دیسی ساخت کا بم نصب کر رہے تھے۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق افغان نیشنل آرمی اور افغان بارڈر پولیس سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی جانب سرحد بند کر دیں تاکہ دہشت گرد وہاں فرار نا ہو سکیں۔
جب کہ افغان سکیورٹی فورسز سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں نورستان اور کنڑ صوبوں میں روپوش پاکستانی طالبان جنگجوؤں اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
اتوار کو شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف ’’ضرب عضب‘‘ بھرپور کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان کو اڈہ بنا کر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر رکھی تھی اور قومی سطح پر زندگی کو مفلوج اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی تھی۔
بیان کے مطابق مسلح افواج کو رنگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ "پوری قوم کی حمایت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے ریاست کے ان دشمنوں کو ملک میں کہیں بھی جگہ نہیں دی جائے گی۔"
حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ رواں سال مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ایک ہی ملاقات کے بعد یہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
پاکستانی فوج نے اس سے قبل 2009ء میں سوات میں راہ راست اور جنوبی وزیرستان میں راہ نجات کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔
جنرل راحیل شریف نے یہ بیان اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے دورے کے موقع پر شرکا سے خطاب میں دیا۔ فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ آرمی چیف کے خطاب کا محور شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کے تناظر میں ملک کی اندرونی اور بیرونی صورت حال تھی۔
ادھر شمالی وزیرستان میں ’ضرب عضب‘ آپریشن جاری ہے اور پیر کو فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ شوال کے علاقے میں جیٹ طیاروں سے کی گئی کارروائی میں دہشت گردوں کے چھ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 27 شدت پسند مارے گئے۔
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری ایک بیان کے مطابق جس علاقے میں یہ کارروائی کی گئی وہاں عام قبائلی موجود نہیں تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ ایک روز قبل دیگان-بوئے میں کی گئی فضائی کارروائیاں انتہائی کامیاب رہیں جن میں 140 دہشت گرد مارے گئے جس میں اکثریت ازبک جنگجوؤں کی تھی۔
لیکن آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد اور مارے جانے والوں کی شناخت سے متعلق تصدیق نہیں ہو سکی کیوں کہ اس قبائلی علاقے تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی نہیں۔
بیان کے مطابق ایسٹ ترکمانستان اسلامی موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) اور اُن سے منسلک جنگجو بھی فضائی کارروائی میں مارے گئے جب کہ اُن کا ایک مرکزی رابطہ دفتر بھی تباہ کر دیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ آپریشن منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور عام آبادی والے علاقوں میں تاحال کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان ایجنسی کے اردگرد اہلکاروں کو تعینات کر کے اس کا دیگر قبائلی علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
جب کہ شمالی وزیرستان کے تمام علاقوں بشمول میر علی اور میران شاہ میں دہشت گردوں کے تمام اڈوں کو گھیرے میں لے لیا گیا ہے اور علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق میر علی کے مضافات سے فرار ہونے والے سات دہشت گرد فوج کی کارروائی میں مارے گئے جب کہ اسپیشل سروسز گروپ کے نشانہ بازوں کی کارروائی میں تین دہشت گرد اُس وقت ہلاک ہوئے جب کہ وہ میران شاہ کے قریب ایک دیسی ساخت کا بم نصب کر رہے تھے۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق افغان نیشنل آرمی اور افغان بارڈر پولیس سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی جانب سرحد بند کر دیں تاکہ دہشت گرد وہاں فرار نا ہو سکیں۔
جب کہ افغان سکیورٹی فورسز سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں نورستان اور کنڑ صوبوں میں روپوش پاکستانی طالبان جنگجوؤں اور ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
اتوار کو شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف ’’ضرب عضب‘‘ بھرپور کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا کہ شدت پسندوں نے شمالی وزیرستان کو اڈہ بنا کر پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ شروع کر رکھی تھی اور قومی سطح پر زندگی کو مفلوج اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈال رکھی تھی۔
بیان کے مطابق مسلح افواج کو رنگ اور نسل کے امتیاز کے بغیر شدت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ "پوری قوم کی حمایت اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک سے ریاست کے ان دشمنوں کو ملک میں کہیں بھی جگہ نہیں دی جائے گی۔"
حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ رواں سال مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن سرکاری مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کی ایک ہی ملاقات کے بعد یہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
پاکستانی فوج نے اس سے قبل 2009ء میں سوات میں راہ راست اور جنوبی وزیرستان میں راہ نجات کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔