سویڈن کے شہر، اسٹاکہوم میں قائم نوبیل انعام کمیٹی نے انسانی ’ڈی این اے‘ کی مرمت سے متعلق تحقیقی کام پر اِس سال کا علم کیمیا کا نوبیل پرائز تین سائنس دانوں کو دینے کا اعلان کیا ہے، جسے سرطان کے علاج کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ نامور تحقیق داں ہیں، برطانیہ کے سر فرینسز کرک انسٹی ٹیوٹ اور کلارا ہال لیباریٹری سے تعلق رکھنے والے محقق ٹومس لِنڈال؛ ڈیوک یونیورسٹی کے پال موڈرچ اور نارتھ کیرولینا کی مشرقی امریکی ریاست کے شہر چیپل ہِل میں قائم ’یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا‘ کے عزیز سنکار۔ لِنڈال سویڈن کے شہری ہیں، جب کہ موڈرچ اور سنکار بالترتیب امریکی اور ترک شہری ہیں۔
منگل کے روز طبیعیات کا 2015ء کا نوبیل انعام تکاکی کاجیتا اور آرتھر میک ڈونالڈ کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جنھوں نے ’نیورینو اوسیلیشنز‘ (مادے کے بنیادی ذرات پر تحقیقی کام کیا)،جس سے پتا چلتا ہے کہ ’نیوٹرینوز‘۔۔جو ’فوٹونز‘ کے بعد، کائنات میں پائے جانے والے سے زیادہ ذرات شمار ہوتے ہیں۔۔ جو مادے کی صورت میں ہوتے ہیں لیکن اپنی شناخت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پیر کے روز، نوبیل کمیٹی نے طب کے شعبے میں ایوارڈ کا اعلان کیا جو آئرلینڈ، جاپان اور چین کے تین سائنس دانوں کو دیا گیا۔
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے، ولیم کیمپ بیل اور جاپان کے ستوشی اومورا نے ’راؤنڈ وورم پیراسائٹس‘ سے جنم لینے والے وبائی مرض کا نیا علاج دریافت کیا ہے۔
ہر سال طب، طبیعیات، کیمیا، ادب اور امن کے نوبیل پرائز دیے جاتے ہیں۔