پانی و بجلی نہیں تو انسداد پولیو کے قطرے بھی نہیں، انوکھا احتجاج

خیبر پختونخوا میں چند مہینے قبل باضابطہ طور پر ضم ہونے والے مختلف قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لوگ روزانہ کسی نہ کسی مسئلے کے حوالے سے پشاور ،اسلام آباد یا کسی دوسرےبڑے شہر میں احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ قبائلی کبھی امن و امان ،کبھی غیر قانونی گرفتاریوں ،گھروں پر چھاپوں اور کبھی نقل مکانی کرنے والوں کو درپیش مسائل اجاگر یاحکمرانوں کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں مگر پیر کو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں قبائلیوں نے اس بنیاد پر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کردیا کہ پہلے حکومت اُنہیں پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرے، پھر انسداد پولیو کے قطرے اپنے بچوں کو پلوائیں گے۔

شمالی وزیرستان کی تحصیل شیوہ کے ایک دور افتادہ گاؤں میمون خیل کریڑہ میں جب بچوں کو پولیو کے مرض سے بچانے کیلئے محکمہ صحت کے اہلکار و رضا کار وہاں پہنچے تو مقا می لوگوں نے یہ کہہ کر اپنے ہی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کردیا کہ ’پانی نہیں توانسداد پولیو کے قطرے بھی نہیں‘

مقامی لوگوں نے بتایا کہ حکومت نے لگ بھگ 15 سال قبل پینے کے پانی کی فراہمی کیلئے ٹیوب ویل لگوایا تھا مگر تاحال اس ٹیوب ویل کو فعال نہیں کیا گیا ۔ لوگوں نے ٹیوب ویل کی تعمیر میں غیر معیاری اشیاء کے استعمال کا بھی الزام لگایا۔

شمالی وزیرستان میں انسداد پولیو مہم کے سربراہ ڈاکٹر عطاء اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار کیا تھا مگر بعد میں انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد اب متعلقہ گاؤں اور اردگرد کے علاقوں میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوائے جارہے ہیں۔

شمالی وزیرستان سے ملحقہ جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا کے گاؤں خوخیل میں بجلی فیڈر کی خرابی پر نہ صرف قبائلیوں نے بچوں کو قطرے پلوانے سے انکار کردیا تھا بلکہ اُنہوں نے روایتی طور پر ڈھولک کی تھاپ پر گاؤں سے وانا تک مظاہر ہ بھی کیا۔

قبائلی علاقوں میں محکمہ صحت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وانا کے گاؤں میں انکاری والدین کے ساتھ انتظامیہ کی بات چیت جاری ہے اور کل سے اس علاقے میں انسداد پولیو مہم کا آغاز کیا جائے گا۔

رواں سال ملک بھر میں پولیو سے 8 بچے متاثرہ ہوئے ہیں جن میں سے تین سابق قبائلی علاقوں اور ایک کا تعلق چارسدہ سے ہے۔ اسی بنیاد پر خیبر پختونخوا میں انسداد پولیو مہم کو کامیاب بنانے پر حکومت زیادہ توجہ دے رہی ہے۔

دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان وہ دو ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو کا وائرس پایا جاتا ہے۔