کیوبا میں واقع گوانتا نامو بے میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے حوالے سے جاری سماعت میں شامل ڈیفنس اٹارنی کا کہنا ہے کہ فوجی کمیشن میں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صرف ایک فریق عینی شاہدین کو بلا سکتا ہے اور کسی ایک فریق کو شواہد حاصل کرنے سے روکنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
''کسی بھی عام عدالت میں دونوں فریق کسی بھی تنازع میں عدالت کے سامنے عینی شاہدین کو لا سکتے ہیں لیکن یہاں صرف استغاثہ کے وکلا ہی ایسا کر سکتے ہیں۔''
جیمز کونیل پانچ ملزمان میں سے ایک عمار البلوشی کے ڈیفنس اٹارنی ہیں۔ عمار البلوشی پاکستانی ہیں جبکہ ان کا اصل نام عبد العزیز علی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جیمز کونیل کا کہنا تھا کہ سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ عمار البلوشی پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے کام کیا جائے جو یہاں گوانتا ناموبے میں مشکل دکھائی دیتا ہے۔
بدھ کے روز سماعت کا تیسرا دن تھا۔ امریکی حکومت کی نمائندگی کرنے والی ٹیم نے کہا ہے کہ سی آئی اے کا مشن خفیہ کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے امریکہ کو محفوظ بنانا ہے۔
بدھ کے روز کی عدالت کی کارروائی زیادہ تر خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے متعلق تھی۔ جس پر وکلا استغاثہ اور ڈیفنس ٹیموں کے درمیان دلائل جاری رہے۔
استغاثہ کے وکلا کی ٹیم کا کہنا ہے کہ بہت سی چیزیں کلاسیفائیڈ یعنی خفیہ ہیں جس کی وجہ سے وہ اسے جاری نہیں کر سکتے یا اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔
جج نے سماعت کے دوران وکلا استغاثہ سے کہا کہ وہ ڈیفنس ٹیم کو تمام لوازمات اور معلومات مہیا کریں تاکہ اس کیس میں پیش رفت ہو سکے۔
گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے ایک دوسرے ملزم مصطفی احمد ال حساوی کے وکیل والٹر رویز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 2009 سے مصطفی آل حساوی کی قانونی نمائندگی کر رہے ہیں لیکن ابھی باقاعدہ مقدمے کی سماعت شروع نہیں کی گئی جبکہ ایک طویل عرصے سے اسے طول دیا جا رہا ہے۔
''مجھے ان سماعتوں سے کم ہی امیدیں ہیں۔ بہت جلدی مقدمے کی باقاعدہ سماعت کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اگر مقدمہ شروع ہو بھی جاتا ہے تو پھر بھی اس میں بنیادی خامیاں ہیں۔ جس کا مقصد محض سزا دینا ہے۔''
آل حساوی کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر آل حساوی کو بری ہونے کے بعد رہا کر بھی دیا جاتا ہے تب بھی حکومت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ انہیں غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور دیگر مقامات پر ہونے والے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان کے خلاف اس ہفتے مقدمے کی باقاعدہ سماعت کا آغاز ہوا۔
گیارہ ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کو امریکہ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں مبینہ طور پر القاعدہ نے چار مسافر طیارے ہائی جیک کر لیے تھے۔
ہائی جیک کیے گئے دو مسافر بردار طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے گئے تھے جبکہ ایک طیارہ امریکی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرز پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرا گیا تھا۔ چوتھا طیارہ جس کا ہدف کیپیٹل ہل تھا امریکی ریاست پینسلوینیا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
ان کارروائیوں میں لگ بھگ تین ہزار شہری ہلاک جبکہ چھ ہزار زخمی ہوئے تھے۔
خالد شیخ محمد کے ساتھ چار دیگر ارکان میں عمار البلوشی, ولید بن آتاش، رمزی بن شبیہ، مصطفی احمد ال حساوی شامل ہیں۔ جن پر نو گیارہ حملوں میں مبینہ کردار پر جنگی جرائم عائد کیے گئے ہیں۔ انہیں 2003 سے 2004 کے درمیان حراست میں لیا گیا تھا ۔
بدھ کی سماعت کے دوران سرکاری وکلا کا کہنا تھا کہ حکومت شواہد کو سامنے لانے سے نہیں ڈرتی لیکن قومی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
آئندہ سماعت کے لیے جمعرات کا دن مقرر ہے۔ جمعرات کو آدھا دن سماعت بند کمرے میں ہوگی۔ وکلا استغاثہ اور ڈیفنس کی ٹیموں کے علاوہ کسی کو اس سماعت میں جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔