نیویارک میں 11 ستمبر 2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دیگر مقامات پر ہونے والے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سمیت پانچ ملزمان کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز آج ہو رہا ہے۔
خالد شیخ محمد کیوبا کی گوانتا نامو بے کی جیل میں قید ہیں انہیں 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
نائن الیون حملوں کو امریکہ کی تاریخ کی بدترین دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔ جس میں مبینہ طور پر القاعدہ نے چار مسافر طیارے ہائی جیک کر لیے تھے۔
دو مسافر بردار طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے تھے۔ ایک طیارہ امریکی وزارت دفاع کے ہیڈ کوارٹرز پینٹاگون کی عمارت سے ٹکرا گیا تھا جبکہ چوتھا طیارہ جس کا ہدف کیپیٹل ہل تھا امریکی ریاست پینسلوینیا کے قریب گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
ان کارروائیوں میں مجموعی طور پر لگ بھگ تین ہزار شہری ہلاک جبکہ چھ ہزار زخمی ہو گئے تھے۔
خالد شیخ محمد کے ساتھ القاعدہ کے دیگر ارکان میں آمار آل بلاچی, ولید بن آتاش، رمزی بن شبیہ، مصطفی احمد ال حوساوی شامل ہیں۔ جن پر نو گیارہ حملوں میں مبینہ کردار پر جنگی جرائم عائد کیے گئے ہیں۔ ان پانچ افراد کو 2003 میں گرفتار کیا تھا۔
بتایا جا رہا ہے کہ سماعت کے دوران ملزمان پر امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (سی آئی اے) کی جانب سے مبینہ تشدد پر بھی بحث کی جائے گی۔ ملزمان کے وکیل اس ضمن میں شواہد امریکی عدالت کے روبرو پیش کریں گے۔
سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل کا کہنا ہے کہ تفتیشی طریقہ کار کے بہترین نتائج ملے ہیں۔
وکلا استغاثہ نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ انہیں خالد شیخ محمد اور ان کے تین ساتھیوں کے درمیان ہونے والی ٹیلی فون کالز کی ٹیپس ملی ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ یہ شواہد انہیں سزا دلانے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ملزمان کو اسی صورت سزا مل سکے گی اگر ملٹری کمیشن کے تمام جج متفق ہوں۔
اس کیس میں 2012 سے اب تک کی سماعت تین جج کر چکے ہیں، موجودہ جج کرنل شین کوہن نے جون میں ہی اپنا عہدہ سنبھالا ہے۔
لگ بھگ سات سال سے مرحلہ وار سماعتوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اس کیس میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
استغاثہ کا موقف ہے کہ تمام ملزمان کو سزائے موت ملنی چاہیے، ابتدائی سماعتوں کے لیے مقامات کی تبدیلی اور گوانتا نامو بے میں مقدمہ چلانے میں درپیش مشکلات کے باعث فیصلے میں مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔
صدر براک اوباما کے دور میں اس کیس کو 120 دن کے لیے موخر کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے اس کیس کو نیویارک کی وفاقی عدالت میں منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
ان افراد کو 2012 میں دوبارہ عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس کے بعد مسلسل مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ تاحال مقدمے کا پری ٹرائل ہو رہا ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2020 سے قبل باقاعدہ مقدمے کا آغاز نہیں ہو سکے گا۔
خالد شیخ محمد کون ہیں؟
پچپن سالہ خالد شیخ محمد کو 2003 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی سے سی آئی اے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے مشترکہ آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں 2006 میں گوانتا نامو بے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔دسمبر 2006 میں گوانتا نامو بے قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔
پینٹاگون کی جاری کردہ دستاویزات کے مطابق خالد شیخ محمد نے اپنے بیان میں نو گیارہ کے حملوں، ڈینیل پرل قتل، جوتے میں بارودی مواد چھپا کر مسافر بردار طیارہ اڑانے کی کوشش، انڈونیشیا میں بالی نائٹ کلب بم حملوں کا بھی اعتراف کیا۔ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر بم حملے کے علاوہ متعدد ناکام حملوں اور دیگر کئی جرائم کا بھی اعتراف کیا۔
فروری 2008 میں گوانتا نامو بے میں یو ایس ملٹری کمیشن نے خالد شیخ محمد اور چار دیگر ملزمان پر تقریباً تین ہزار لوگوں کے قتل، دہشت گردی، دہشت گردی کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے، جہاز ہائی جیک کرنے اور گیارہ ستمبر حملوں میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے تھے۔
سماعت کے دوران خالد شیخ محمد نے امریکی حکام کی جانب سے بدسلوکی کی بھی شکایت کی تھی۔