نائجیریا کے دو شہروں میں واقع اخبارات کے دفاتر پہ جمعرات کو کیے جانے والے خود کش حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد نو ہوگئی ہے۔
نائجیریا کے انتہا پسند اسلامی فرقہ 'بوکو حرام' پر ان حملوں میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کیوں کہ یہ تنظیم ماضی میں ذرائع ابلاغ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی رہی ہے۔
جمعرات کو ہونے والے ان حملوں میں دو کار سوار خود کش بمباروں نے ملک کے معروف اخبار 'دِس ڈے' کے دارالحکومت ابوجا اور شہر کدونا میں واقع دفاتر کو نشانہ بنایا تھا۔
نائجیریا کے ایک آن لائن اخبار نے جمعرات کی شب یہ خبر دی کہ فرقے نے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے خلاف مزید حملے کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
لیکن نائجیریا کے صحافیوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کے حملے اور دھمکیاں انہیں عوام تک درست خبر پہنچانے سے باز نہیں رکھ سکتے۔
ایک مقامی آن لائن اخبار ' دی پریمیم ٹائمز' نے جمعرات کی شب 'بوکو حرام' کے ترجمان کا ایک خصوصی انٹرویو شائع کیا ہے۔انٹرویو میں ابو قعقاع نامی ترجمان نے کہا ہے کہ خود کش دھماکے ذرائع ابلاغ کی ان غلط اور متعصبانہ خبروں کا جواب ہیں جو ان کے بقول میڈیا ان کے فرقے کے بارے میں پھیلا رہا ہے۔
ترجمان نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ فرقے کے خود کش بمباروں نے 'دس ڈے' کے دفاتر کو اس لیے نشانہ بنایا کہ کیوں کہ اس کے "گناہ" دیگر ذرائع ابلاغ سے زیادہ سنگین تھے۔
تاحال اس انٹرویو کے مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے لیکن یاد رہے کہ ابو قعقاع عموماً مقامی صحافیوں کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں رہتا ہے۔
ادھر ابوجا میں خود کش حملے کا نشانہ بننے والے اخبار 'دس ڈے' کے ایگزیکٹو ایڈیٹر نے اپنی ادارتی پالیسی کا دفاع کیا ہے۔
جمعرات کو دھماکے کے بعد دفتر کے باہر موجودصحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ازرائیل اویگبو نے کہا کہ ان کے اخبار نے ہمیشہ 'بوکو حرام' کے موقف اور ان کے ترجمان کے بیان کو جگہ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا اخبار ہمیشہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے واقعات کو حقیقت کے عین مطابق رپورٹ کرتا رہا ہے اور کبھی بھی 'بوکو حرام' کے خلاف حقیقت سے ہٹ کر خبر شائع نہیں کی گئی۔
'دس ڈے' میں جمعے کو شائع ہونے والے ایک اداریے میں کہا گیا ہے کہ "کسی بھی دھمکی یا انتقامی کاروائی سے ادارے کے عزم" میں کمی واقع نہیں ہوگی۔
یاد رہے کہ جمعرات کی صبح ایک خود کش حملہ آور نے اپنی بارود سے بھری جیپ دارالحکومت ابوجا کی اس عمارت کے مرکزی دروازے سے ٹکرادی تھی جس میں اخبار کا دفتر اور چھاپہ خانہ قائم ہے۔
اخبار کی جمعہ کی اشاعت میں کہا گیا ہے کہ حملے میں حملہ آور سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اس حملے کے کچھ دیر بعد شمالی شہر کدونا میں ہونے والے دو بم حملوں میں کم از کم چار افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔
پہلا بم دھماکہ اس عمارت کے باہر ہوا تھا جہاں 'دس ڈے' سمیت دو دیگر مقامی اخبارات کے دفاتر قائم ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ پہ موجود لوگوں نے بم رکھنے والے شخص کو پکڑنے کے بعد اسے جان سے مارنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے اسے اپنی حراست میں لے لیا۔
کدونا میں ہونے والے بم حملے میں 'دی مومنٹ' نامی ایک اخبار کا دفتر بھی نشانہ بنا ہے جس کے بیورو چیف گاربا محمد کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو 'بوکو حرام' کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرنے میں خاصی دشواریاں درپیش ہیں۔
'دس ڈے' کے مدیرِ منتظم اور 'دی مومنٹ' کے بیورو چیف نے اپنی گفتگو میں خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا 'بوکو حرام' کے ترجمان کا بیان درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب صحافی بھی تنظیم کے نشانے پر آگئے ہیں۔
واضح رہے کہ 'بوکو حرام' کے بارے میں بہت زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور یہ فرقہ تاحال حکام کے لیے بڑی حد تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
اس فرقے نے اپنی پرتشددکاروائیوں کا باقاعدہ آغاز 2010ء میں کیا تھا جس کے بعد سے اب تک اس کے حملوں میں ایک محدود اندازے کے مطابق ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔