ایک خط کے مطابق جس کے مندرجات خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس نے دیکھے ہیں، افریقی ملک نائیجر کی فوجی ہنتا نے ملک کے معزول صدر کو بحال کرنے کی تازہ ترین سفارتی کوشش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور منگل کو مغربی افریقی بلاک، افریقن یونین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کے مجوزہ دورے کو مسترد کر دیا ہے۔
اس مذکورہ خط میں، باغی فوجیوں کی جانب سے ملک کے جمہوری طور پر منتخب لیڈر کا تختہ الٹ دیے جانے کے دو ہفتوں کے بعد ، نائیجر کے خلاف خطرات کے اس ماحول میں ، سیکیورٹی کی واضح وجوہات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ایکو واس کے نام سے معروف علاقائی بلاک نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہنتا نے اتوار تک صدر محمد بازوم کو بحال نہیں کیا تو وہ فوجی طاقت استعمال کرے گا۔ لیکن فوجی ہنتا نے اس ڈیڈ لائن کی پروا نہیں کی اور اسے نظر انداز کر دیا۔
ایکوداس کی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے اور ان کی جانب سے کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔
SEE ALSO: نائیجر میں بغاوت سے عدم تحفظ اور انتہا پسندی میں اضافہپیر کے روز امریکہ کی قائم مقام نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نو لینڈ نے بغاوت کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے کے بعد بتایا کہ انہیں بازوم سے ملنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ مغزول صدر کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ فی الوقع گھر میں نظر بند ہیں۔
نولینڈ نے بغاوت کرنے والے افسروں کے بارے میں بتایا کہ مذاکرات شروع کرنے اور آئینی حکمرانی بحال کرنے کے لیے کی جانے والی ان کی اپیل کوئی اثر نہیں ہوا۔
نائیجر کے دار الحکومت نیامے سے ایک فون کال میں نولینڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ باغی فوجی لیڈروں سے ان کی بات چیت بہت صاف اور بعض موقعوں پر خاصی مشکل تھی، کیونکہ ہم مذاکرات کے ذریعے حل کے لیے کوشاں ہیں۔وہاں کوئی پذیرائی حاصل کرنا آسان نہ تھا۔ وہ اپنے نظریات میں خاصے پختہ ہیں کہ انہیں معاملات کس طرح چلانا ہیں۔
توقع ہے کہ ایکو واس جمعرات کے روز، پڑوسی ملک نائیجیریا کے دار الحکومت ابو جا میں صورت حال پر غور کے لیے اپنی میٹنگ کرے گا۔ منگل کے روز نائیجر کے دار الحکومت میں زیادہ کشیدگی نظر آئی اور سیکیورٹی فورسز گاڑیوں کو چیک کرتی ہوئی دیکھیں گئیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ریڈیو فرانس انٹرنیشنل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سفارت کاری آگے بڑھنے کا ترجیحی راستہ ہے۔ اور وہ نائیجر میں متعین 1100 امریکی فوجی اہل کاروں کے مستقبل کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کر سکے۔
بلنکن نے کہا کہ نائیجر میں جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بہت پریشان کن ہے، اور اس سے اس ملک اور وہاں کے عوام کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کے برعکس آئینی نظام میں مداخلت ہمیں اور بہت سے دوسرے ملکوں کو اس مقام پر لاکر کھڑا کرے گی، جہاں ہمیں اپنی مدد اور اپنی حمایت بند کرنی پڑے گی اور اس سے نائیجر کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
نائیجر، امریکہ اور دوسرے یورپی ملکوں کا اہم پارٹنر ہے جو اسے صحارا ریگستان کے جنوب میں ، ساحل کے وسیع خطے میں واقع آخری جمہوری ملکوں میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ اور القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے تعلق سے بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف اس کے ساتھ مل کر لڑ سکتے ہیں۔
امریکہ نے اب تک ہنتا کی کارروائی کو بغاوت قرار نہیں دیا ہے۔ ورنہ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ نائیجر ، لاکھوں ڈالر کی فوجی امداد سے محروم ہو جاتا۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس)