نیپال میں بین الاقوامی اور غیر سرکاری تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ 25 اپریل کو آنے والے زلزلے سے ہونے والی تباہی کے باعث ہزاروں لڑکیوں اور عورتیں انسانی سمگلنگ کے خطرے سے دوچار ہیں۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی حفاظت کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ نیپال میں ہزاروں لوگ پناہ اور سامان کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے غریب عورتیں اور لڑکیاں نا امید ہو رہی ہیں اور انسانی سمگلنگ کے خطرے سے دوچار ہو گئی ہیں۔
غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ گروہ خاص طور پر دیہی آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور بعض اوقات عورتوں اور لڑکیوں کو اغوا کرنے یا بہلا پھسلا کر لے جانے کے لیے امدادی کارروائیوں کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ نیپال سے ہر سال 15,000 لڑکیاں سمگل کی جاتی ہیں، اور ان میں سے کچھ کو جسم فروشی کے لیے جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ تک لے جایا جاتا ہے، جبکہ اکثریت کو بھارت لے جایا جاتا ہے جہاں ہزاروں عورتین قحبہ خانوں میں جسم فروشی کا کام کرتی ہیں۔
انسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی ’میتی نیپال‘ نامی تنظیم کی بانی انورادھا کوئرالا نے کہا کہ امداد کے بحالی کے کام کے دوران بچے خاص طور پر خطرے سے دوچار ہیں۔
انورادھا کوئرالا نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں وہ 80 فیصد علاقے بھی شامل ہیں جہاں سے بچوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بہت کم لوگ اس مسئلے کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بچے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ ہمیں انہیں بچانا ہے اور ان کا خیال رکھنا ہے۔ ہم نے خود تین بچوں کو بچایا ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ نے عارضی سکولوں کے قیام کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عمارتیں تباہ ہونے کی وجہ سے 10 لاکھ بچے سکول نہیں جا سکتے۔
یونیسف نے کہا ہے کہ گورکھا، شندوپل چوک اور نواکوٹ میں 90 فیصد سے زائد سکول تباہ ہو گئے ہیں۔ کھٹمنڈو اور بھکتاپور میں سکولوں کی عمارتوں کو زلزلے کے متاثرین کے لیے عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
’میتی نیپال‘ کی انورادھا کوئرالا نے کہا کہ سکولوں کی تعمیرنو اور دیہی آبادیوں میں انسانی سمگلنگ کرنے والوں کے بارے میں آگہی پیدا کرنا قومی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق نیپالی عورتیں اور لڑکیاں نپیال اور بھارت میں گھروں میں، گداگروں کے طور پر، فیکٹریوں میں اور کانوں میں جبری مشقت کا شکار ہیں۔ کچھ کو جنسی فلموں کی صنعت میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ کچھ کو سمگل کر کے ملائشیا، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور چین کے ضلع کھاسا لے جایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ نیپال انسانی سمگلنگ روکنے کے کم از کم معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے مگر اس سلسلے میں اہم پیش رفت کی جا رہی ہے۔ سرگرم کارکنوں نے اس مسئلے پر ہونے والی پیش رفت کے زلزلے کے بعد ضائع ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔