نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں جب ایک شہری فل میکلین کا تابوت چرچ میں داخل ہوا تو پہلے تو غمناک صدائیں ہال میں سنائی دیں، مگر پھر چرچ کی فضا میں قہقہوں کی آوازیں گونج اٹھیں۔ یہ تابوت ایک بڑے سائز کے ڈونٹ کی شکل کا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے میکلین کی بیوہ ڈیبرا نے بتایا کہ اس واقعے سے ان کے خاندان پر پچھلے کئی ہفتوں سے پھیلی اداسی کچھ لمحوں کے لیے غائب ہو گئی۔ فل میکلین کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والوں کو یاد رہا تو ایک بڑے سائز کاڈونٹ اور فل کی حس مزاح۔
یہ ڈونٹ کی شکل کا تابوت، فل کے کزن راس حال کی تخلیق تھی، جو نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ میں ’ڈائینگ آرٹ‘ نامی کاروبار چلاتے ہیں، جس میں وہ ہلاک ہونے والوں کے لیے رنگ برنگے اور انوکھے تابوت تیار کر کے فروخت کرتے ہیں۔
راس حال کی دوسری تخلیقات میں چھوٹے سائز کی کشتی، چاکلیٹ بار، لیگو بلاکس کی شکل کے تابوت بھی شامل ہیں۔ ایک کافن یا تابوت ہالی وڈ کی فلم ’’دی میٹرکس‘‘ سے متاثر ہو کر بنایا گیا، جس میں تابوت جعلی جواہر سے لدا ہوا تھا۔ ایسے ہی لوگوں کی پسندیدہ جگہیں، ساحلوں کی تصاویر بھی تابوتوں پر لگائی جاتی ہیں۔
راس حال کے بقول، اگر لوگ لکڑی سے بنے ہوئے خاکی رنگ کے باکس میں بند ہونا چاہتے ہیں تو مجھ کوئی اعتراض نہیں، لیکن اگر وہ کچھ انوکھا چاہتے ہیں، تو میں ان کی مدد کے لیے حاضر ہوں۔
راس کے مطابق یہ خیال انہیں 15 برس پہلے اپنی وصیت لکھتے ہوئے آیا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ اس دنیا سے کیسے جانا چاہتے ہیں۔ بقول ان کے انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا کہ میں ایک لال ڈبہ نما تابوت چاہتا ہوں، جس پر سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہوں۔
لیکن چھ ماہ بعد راس حال نے، جو پہلے ہی ایک گرافکس کی کمپنی چلاتے تھے، اس خیال پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا۔ شروع میں انہوں نے آخری رسومات کا انتظام کرنے والے کچھ افراد سے رابطہ کیا، جنہوں نے ان کے خیال سے اختلاف ظاہر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ ان کے اس خیال کو پذیرائی ملنے لگی۔
راس یہ تابوت سادہ لکڑی سے بناتے ہیں اور پھر ان پر حسب ضرورت کچھ نہ کچھ لگاتے جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ڈیجیٹل پرنٹرز کا بھی سہارا لیتے ہیں۔
تابوت پر جتنی محنت ہوتی ہے، اسی کے مطابق اس کی قیمت کا بھی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ یہ تابوت 21 سو سے 54 سو امریکی ڈالر کے درمیان فروخت کئے جاتے ہیں۔
راس کے مطابق، اب لوگ ایسے تابوت کے استعمال کو اپنے پیاروں کی موت پر غم منانے کے بجائے، ان کی بھرپور زندگی کی خوشگوار یاد منانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔