امریکہ میں نیو انگلینڈ کے علاقے کے مختلف مقامات سے دریافت ہونے والے چند سکوں سے دنیا کے ایک بےحد پرانے حل طلب جرم کی گتھی سلجھانا ممکن ہو گیا ہے۔
اس کہانی کا ولن ایک انگریز سمندری قذاق ہے، جو سترہویں صدی کے دوران بھارت سے مکہ جانے والے حاجیوں کے بحری جہاز کو لوٹنے کے بعد دنیا کا سب سے مطلوب شخص بن گیا تھا۔ یہ شخص بعد میں غلاموں کے بیوپاری کا ملمع اوڑھ کر قانون کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
ایک شوقیہ تاریخ دان جم بیلی نے خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ایک انتہائی کامیابی سے کئے گئے جرم کی نئی تاریخ ہے۔‘‘ جم دھاتوں کو ڈھونڈنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ نیو انگلینڈ کے علاقے مڈل ٹاؤن کے ایک مرغزار سے 17ویں صدی کے یہ سکے انہوں نے ڈھونڈے تھے۔
ان سکوں سے، جو شمالی امریکہ سے ملنے والے پرانے ترین سکوں میں سے ایک ہیں، یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ہنری ایوری کہاں غائب ہو گیا تھا۔
7 ستمبر 1695 کے روز قذاقوں کے ایک بحری جہاز نے، جس کا کیپٹن ہنری ایوری تھا، مغل بادشاہ اورنگزیب کے شاہی بحری جہاز، گنج سوائی پر دھاوا بول کر اسے اپنے قبضے میں کر لیا۔ اس جہاز میں مکہ سے آنے والے ہندوستانی حاجیوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کا سونا اور چاندی بھی موجود تھا۔
اس کے بعد جو ہوا، اسے دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتیوں میں سے ایک کہا جا سکتا ہے۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہنری ایوری کے گروہ نے اس جہاز پر موجود مردوں کو قتل کر دیا، عورتوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور جہاز پر موجود خزانہ لے کر بہاماس کے سمندری علاقےکی جانب فرار ہو گئے، جو اس زمانے میں بحری قذاقوں کی جنت سمجھا جاتا تھا۔
لیکن ان کے جرائم کی شہرت برطانوی بادشاہ ولیم سوئم تک پہنچ گئی جو ہندوستان کے طاقتور بادشاہ اورنگزیب کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا تھا۔ اس لیے ہنری ایوری کے سر پر اس وقت کے 500 پونڈ کا انعام مقرر کیا، جسے بعد میں بڑھا کر 1000 پونڈ کر دیا گیا۔
بیلی کا کہنا ہے کہ آج گوگل پر آپ دنیا بھر میں کسی بھی مجرم کی تلاش کے بارے میں لکھیں گے تو آپ کے سامنے بحری قذاق ہنری ایوری کا نام آ جائے گا۔
’’ہر کوئی اس گروہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘
ہنری ایوری پہلا شخص تھا، جو دنیا بھر میں مطلوب تھا۔ لیکن کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں موجود ہے۔
اب تک تاریخ دان یہ سمجھتے رہے تھے کہ وہ 1696 میں آئیرلینڈ کی جانب بحری سفر پر نکلا تھا۔ مگر اس کے بعد اس کا کھوج نہیں ملتا۔ مگر جم بیلی کا کہنا ہے کہ ان سکوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے مطلوب قذاق برطانیہ کی امریکہ میں موجود نوآبادیوں میں موجود تھا، جہاں اس کے گروہ کے لوگ قانون سے فرار ہونے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار میں مصروف تھے۔
سب سے پہلے ایسے سکے 2014 میں مڈل ٹاؤن کے ایک کھیت سے ملے۔ جم بیلی کو اس مقام سے اس سے پہلے 18ویں صدی میں جوتے بند کرنے والا ایک بکل اوراس زمانے کی بندوق میں استعمال ہونے والی گولیاں ملی تھیں۔ ان سکوں کے ملنے کے بعد اسے اس علاقے میں خاص دلچسپی پیدا ہو گئی۔
میٹل ڈیٹیکٹر کی مدد سے اس نے مٹی کے اندر دفن مزید سکے ڈھونڈ نکالے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ سکے یا تو سپین کے ہیں یا مقامی طور پر میساچوسٹس بے کالونی کی ٹکسال میں بنے ہیں۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے غور سے دیکھا، تو ان پر عربی عبارت لکھی ہوئی تھی۔ ان کے الفاظ میں ’’میں نے سوچا، اوہ میرے خدا۔‘‘
تحقیق سے جب یہ ثابت ہوا کہ یہ سکہ 1693 میں یمن کی ٹیکسال میں بنایا گیا تھا تو اس سے یہ سوال کھڑے ہو گئے کہ یہ سکہ یہاں کیسے آیا۔ بیلی کے مطابق اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس زمانے تک امریکی نوآبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے مشرق وسطی سے تجارت کی ہو۔
اس کے بعد کئی اور افراد نے اس زمانے کے 15 ایسے سکے اس علاقے سے دریافت کئے ہیں۔ 10سکے ریاست میساچوسٹس سے، 3 ریاست رہوڈ آئی لینڈ سے اور 2 ریاست کنیٹی کٹ سے۔ ایک سکہ ریاست نارتھ کیرولینا سے دریافت ہوا، جہاں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ہنری ایوری کے گروہ کے چند لوگ پناہ لینے آئے تھے۔
امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کی ماہر آثار قدیمہ سارا سپورٹ مین کہتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ گروہ نیو انگلینڈ کے علاقے میں تھا اور مقامی لوگوں میں گھل مل گیا تھا۔
بقول ان کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کی ایک سکیم تھی۔
جہاں آج یہ بات ناممکن لگتی ہے لیکن ہنری ایوری اس زمانے میں سب کی آنکھوں کے سامنے قانون سے چھپنے میں کامیاب ہو گیا کیونکہ اس نے خود پر غلاموں کے بیوپاری کا ملمع چڑھا لیا۔ اس زمانے میں یہ نیو انگلینڈ میں ایک ابھرتا ہوا کاروبار تھا۔
جم بیلی کا خیال ہے کہ ہنری ایوری نام کا سمندری قذاق امریکہ کے علاقے نیوانگلینڈ تک پہنچنے سے پہلے فرانس کے جزیرے ری یونین میں رکا ہوگا تاکہ اس مقصد کے لیے کچھ سیاہ فام قیدی بھی اپنے پاس رکھے۔
تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں 'سی فلاور' نامی ایک بحری جہاز، جسے شاید ان قذاقوں نے اپنے اصل بحری جہاز 'فینسی' کو چھوڑنے کے بعد استعمال کیا ہوگا، سال 1696 میں رہوڈ آئی لینڈ کی بندرگاہ نیوپورٹ میں چار درجن غلاموں کے ساتھ پہنچا تھا۔ اس علاقے میں یہ بندرگاہ شمالی امریکہ میں غلاموں کی تجارت کا مرکز بن گئی تھی۔
جم بیلی کی یہ تحقیق سکوں اور میڈلز پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے امریکی نمیسمیٹک سوسائٹی (American Numismatic Society)کے ریسرچ جنرل میں شائع کی گئی ہے۔
جم بیلی کے کام سے واقف دیگر ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں متجسس ہیں، اور ان کے خیال میں اس تحقیق سے دنیا کے سب سے پرانے حل طلب کیسز میں سے ایک پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔