بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اتوار کو لگاتار دوسرے دن بھی تشدد جاری رہا جس کے نتیجے میں کم سے کم دس افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
مارے گئے افراد میں پانچ مشتبہ عسکریت پسند اور اتنی ہی تعداد میں عام شہری شامل ہیں۔
عہدیداروں نے بتایا کی جنوبی ضلع شوپیان کے گاؤں بڑی گام میں کئے گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ کے دوران عسکری تنظیم حزب المجاہدین کا ایک اعلیٰ کمانڈر صدام پاڈر اور اُس کے چار ساتھی مارے گئے۔ صدام پاڈر حزبِ المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کا قریبی ساتھی تھا۔
برہان وانی کو بھارتی فوج نے 8 جولائی 2016 کو ایک آپریشن کے دوراں ہلاک کیا تھا جس کے بعد وادئ کشمیر اور جموں صوبے کے بعض مسلم اکثریتی علاقوں میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی شورش کے دوران 80 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
حزب المجاہدین نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی عسکری تنظیم ہے۔
عہدیداروں نے یہ بھی بتایا کہ صدام پاڈر کے ساتھ جو چار مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے اُن میں کشمیر یوینورسٹی کا ایک اسسٹنٹ پرفیسر ڈاکٹر محمد رفیع بٹ بھی شامل ہے۔
پروفیسر بٹ گزشتہ جمعہ کو سری نگر میں اپنی عارضی رہائش گاہ سے یونیورسٹی کے لئے روانہ ہونے کے بعد اچانک لاپتہ ہوگئے تھے اور یونیورسٹی حکام، پولیس اور ان کے خاندان کی طرف سے انہیں ڈھونڈ نکالنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی تھی۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس پی پانی نے بتایا کہ پروفیسر بٹ اور فوجی آپریشن کے دوران بڑی گام شوپیان کے ایک نجی گھر میں محصور ہونے والے عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو حفاظتی دستوں کے حوالے کرنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔
"ہم نے پبلک ایڈریس سسٹم کے ذریعے انہیں ہتھیار ڈالنے کے لئے کہا تھا۔ ہم نے ان کے قریبی رشتے داروں کو بھی انکاؤنٹر سائٹ پر بلاکر ان کے ذریعے بھی انہیں ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن انہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا"-
پروفیسر بٹ کے والد عبدالرحیم بھٹ نے پولیس کو بتایا کہ انہیں بیٹے نے الوداع کہنے کے لئے اتوار کو علی الصباح آخری بار فون کیا اور کہا "میں معافی مانگتا ہوں اگر میں نے آپکو ٹھیس پہنچائی ہے" ۔
عہدیداروں نے بتایا کہ جھڑپ میں ایک بھارتی فوجی اور مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کا ایک سپاہی زخمی ہوگئے۔
مقابلے میں یونیورسٹی پروفیسر کے مارے جانے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبد اللہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ "یہ دکھ کی بات ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لئے جواب ہے جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ نوکریاں اور تعمیر وترقی کشمیر میں جاری تشدد اور اجنبیت کے مسائل کا حل ہیں۔ یہ کشمیر میں روا ں سانحات کی ندی میں ایک اور سانحے کا اضافہ ہے"
محصور عسکریت پسندوں اور حفاظتی دستوں کے درمیان مقابلہ جاری تھا کہ مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے گھروں سے باہر آکر پولیس ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ فوج نے پُر تشدد مظاہرین پر گولی چلادی جس کے نتیجے میں ایک 21 سالہ نوجوان آصف احمد میر شدید طور پر زخمی ہوا اور بعد میں سری نگر کے ایک اسپتال میں چل بسا۔
صدام پاڈر ، ان کے ساتھیوں اور مقامی نوجوان کے مارے جانے کی خبر پھیلتے ہی شوپیان اور ہمسایہ اضلاع پلوامہ اور کلگام میں لوگوں نے جگہ جگہ سڑکوں پر آکر مظاہرے کئے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے حفاظتی دستوں پر سنگباری کی ۔ فوج اور دوسرے سرکاری دستوں نے مظاہرین پر گولی چلادی اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔
پولیس اور اسپتال ذرائع کے مطابق حفاظتی دستوں کی طرف سے مظاہرین پر آتشیں اسلحے کے استعمال کے نتیجے میں کم سے کم پانچ شہری ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کا شوپیان، کلگام، اننت ناگ، پلوامہ اور سری نگر کے اسپتالوں میں علاج ہورہا ہے۔
یہ واقعات سری نگر میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ہوئی ایک جھڑپ میں لشکرِ طیبہ کے تین مشتبہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور اس دوراں مظاہرین پر پولیس کی طرف سے گاڑی چڑھائے جانے کے نتیجے میں ایک 17 سالہ نوجوان کے مارے جانے کے ایک دن بعد پیش آئے ہیں۔
ہفتے کو پیش آئی ان ہلاکتوں کے خلاف شورش زدہ وادئ کشمیر میں عام ہڑتال کی جارہی ہے۔ جبکہ گرمائی صدر مقام سری نگر کے کئی علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستے کرفیو نافذ کررہے ہیں ۔