امیگریشن قوانین میں حالیہ تبدیلی امتیازی سلوک ہے: ماہرین

فائل

امیگریشن قانون میں بعض حالیہ تبدیلیوں کے بعد اب قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو بھی سرکاری وسائل کے استعمال کی بنیاد پر گرین کارڈ کے اجرا اور شہریت دینے سے انکار کیا جا سکے گا۔

ماہرین اس قانون کو امتیازی قرار دے رہے ہیں۔ جس کی، بقول ان کے، ’’امریکی آئین اور اقدار میں گنجائش نہیں‘‘۔ لیکن، دوسری جانب، ریپبلکن پارٹی کے رہنما صدر کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ امریکہ کو پھر سے عظیم ملک بنانے کے لیے، وہ اسے ضروری سمجھتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی نے ایک نیا ’پبلک چارج لا‘ جاری کیا تھا جس کا مقصد قانونی طریقے سے امریکہ آنے والے تارکین وطن کو، اگر انھوں نے میڈی کیڈ، فوڈ اسٹیمپ یا ہاؤسنگ واوچر سے استفادہ کیا ہو، گرین کارڈ یا شہریت دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔

ماہرین کے نزدیک امیگریشن کا یہ نیا قانون امتیازی ہے۔ سو سال پہلے 1880 میں بھی چینی باشندوں کو امریکہ بدر کرنے کے لیے ایسا ہی ایک قانون متعارف کرایا گیا تھا۔

امیگریشن قوانین کے ماہر، بیرسٹر سلیم رضوی کے الفاظ میں، ’’یہ قانون بہت عرصے سے قانون کی کتابوں میں موجود ہے۔ یہ 1880 کی بات ہے جب ایک اسٹیج پر چینیوں کو امریکہ سے باہر نکالنے کی مہم شروع ہوئی تھی۔ اس وقت ’پبلک چارج لا‘ بنایا گیا تھا۔ اب اس کی نوعیت کو مزید سخت بنایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کہ وہ لوگ جو گرین کارڈ حاصل کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، انھیں گرین کارڈ دینے سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ان کی آمدن کم ہے یا وہ غریب ہیں اور کسی مرحلے پر انھوں نے حکومت سے عوامی فوائد حاصل کیے تھے۔

نیا ’پبلک چارج لا‘ مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں، چونکہ یہ امتیازی قانون امریکی آئین میں دی گئی مساوی حقوق کے ضابطوں سے متصادم ہے، اس لیے اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔

بیرسٹر سلیم رضوی مزید کہتے ہیں کہ ’’یہ کہنا کہ اب ہم تمہیں گرین کارڈ اس لئے نہیں دیں گے کہ تمہاری آمدن کم ہے یا تم نے کبھی عوامی فوائد حاصل کیے تھے، صریحاً امتیازی سلوک ہے، جس کی وجہ سے پورے امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’اس سے پہلے یہاں غیر قانونی تارکین وطن کو نشانہ بنایا گیا اور انھیں ملک بدر کیا گیا؛ اور اب ایک اور نیا دروازہ کھلا ہے جس کے تحت غیر قانونی حیثیت رکھنے والوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا، بلکہ ان لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو یہاں قانونی طور پر رہ رہے ہیں‘‘۔

اس لیے، انھوں نے کہا کہ ’’یہ ایک امتیازی سلوک ہے، جو میرے خیال میں، امریکی آئین اور امریکی اقدار کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مقامات پر اس قانون کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ کیلی فورنیا میں درجنوں کاونٹیز نے اسے عدالت میں چیلنج کر دیا ہے، جب کہ نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ یہ قانون عدالت میں چیلنج کرنے والے ہیں‘‘۔

لیکن، ٹرمپ انتظامیہ کے ان اقدامات کو ملکی مفاد میں قرار دیتے ہوئے سراہا بھی جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حامی تارکین وطن کے خلاف اس طرح کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔

’مسلمز فار ٹرمپ‘ کے سربراہ، ساجد تارڑ نے کہا ہے کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے۔

ساجد تارڑ کے الفاظ میں، ’’میرے خیال میں، یہ کوئی نیا قانون نہیں ہے۔ 1996 میں یہ قانون بنا تھا۔ لیکن، بل کلنٹن دور میں اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اور کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب ایک تاجر ہیں؛ اور ان کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ وہ امریکہ کو دوبارہ مضبوط بنائیں گے۔ ایسا ہے کہ جس طرح وہ نیٹو کے پیچھے گئے۔ تمام رکن ملکوں سے کہا کہ وہ اپنے حصے کے پورے پیسے ادا کریں۔ اسی طرح محصولات کی باتیں چل رہی ہیں۔ اسی حوالے سے صدر نے یہ قدم اٹھایا ہے، جو لوگ ملک پر بوجھ بنیں گے۔ میرے خیال میں انھیں قانونی طور پر امریکہ میں رہنے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہیے۔‘‘

صدر ٹرمپ کی جماعت، ریپبلکن پارٹی کے دیگر رہنما بھی صدر کے ان اقدامات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

بولنگ بروک سٹی کے پولیس کمشنر اور ریپبلکن رہنما، طلعت رشید کہتے ہیں، ’’میں اس مسئلے میں ریپبلکن پارٹی کی حمایت کرتا ہوں کہ ایسے لوگ جو اس نظام کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں، ان کو گرین کارڈ نہیں ملنا چاہئے۔ میں اس کے حق میں ہوں کہ اسے فزیکل ایبیوز کہتے ہیں‘‘۔

ایک جانب ٹرمپ انتظامیہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اقدامات کر رہی ہے، تو دوسری جانب اب ’پبلک چارج لا‘ جیسے قوانین کی مدد سے قانونی طور پر امریکہ ہجرت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن ہو سکے گی۔ تارکین وطن کے خلاف نئی نئی پابندیاں عائد کرنے کا مقصد امریکہ کو ایک بار پھر عظیم ملک بنانا بتایا جاتا ہے۔