امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ توقع ہے کہ روس ، ایران اور شمالی کوریا کے خلاف نئی پابندیوں کے بل پر دستخط کر کے اسے قانون کی شکل دے دیں گے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب واشنگٹن صدر کے دستخط کا انتظار کررہا ہے ، روس کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں پر عمل درآمد کی صورت میں جوابی اقدامات کرے گا۔
پابندیوں کے بل نے کانگریس میں ایک غیر معمولی صورت حال پیدا کر دی اور وہ تھی ایک واضح اور بھر پور دو جماعتی ہم آہنگی ۔ یہ بل سینیٹ میں دو کے مقابلے میں 98 ووٹوں سے منظور ہوا۔
ری پبلکن سینیٹر جان مک کین کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جمہوریت پر حملے برداشت نہیں کریں گے ۔ یہ بل صرف اور صرف اسی بارے میں ہے۔
یہ پابندیاں روسی صدر ولادی میر پوٹن کے طاقت کے گڑھ کے متعدد حصوں کو ہدف بناتی ہیں ۔
ڈیموکریٹ سینیٹر بن کارڈن کہتے ہیں کہ اس بل میں توانائی، مالیاتی اور انٹیلی جینس اور دفاع کے شعبوں میں لازمی پابندیاں شامل ہیں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے اے بی سی کے پروگرام دس ویک میں کہا تھا کہ یہ مکمل طور پر ایک عجیب و غریب اور ناقابل قبول بل ہے، ہم اس پر جوابی رد عمل پیش کریں گے ۔ آپ ایسا نہ کریں ۔
ماسکو نے روس میں امریکی سفارتی عملے میں کمی کا حکم دے دیا ہے ۔ نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ روس گذشتہ سال بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح صدر ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھا لیکن وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر روسی سفیر سرگئی کیسلیاک دوسری جانب کے کچھ لوگوں سے رابطہ نہیں کرتے تو یو ں سمجھیں کہ وہ اپنے فرائض اس طریقے سے ادا نہیں کر تے جیسا کہ انہیں کرنا چاہییں تھے ۔ وہ جاسوسي نہیں کر رہے تھے اور وہ بھرتی نہیں کر رہے تھے ۔اگر وہ ایسا کرتے تو میں اس وقت ایک اہم ترین کردار ہوتا۔
ڈیمو کریٹ سینیٹر چک شومر نے کہا کہ ایک خود مختار قوم کے طور پر کسی غیر ملکی قوم کی جانب سے ہمارے انتخابات پر اثر انداز نہ کیے جانے کے ہمارے حق کو اس چونکا دینے والی اثر اندازی پر مسٹر پوٹن اور ان کے اتحادیوں نے سنگین نتائج نہیں بھگتے ہیں ۔اور آج یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے اس کے میزائل کے تازہ تجربے کے بعد یہ پابندیاں اس کو بھی ہدف بناتی ہیں۔
ری پبلکن سینیٹر کوری گارڈنر کہتے ہیں کہ ہمیں مسٹر کم کی جنونی حکومت کو روکنے کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔
چین میں پانچ ہزار تجارتی کمپنیاں ابھی تک شمالی کوریا کے ساتھ کاروبار کر رہی ہیں۔ چین شمالی کوریا کی معیشت میں نوے فیصد کا ذمہ دار ہے۔
ایران کو بھی اس کی غیر جوہری سر گرمیوں کی بنا پر، جن میں بالسٹک میزائل کا اس کا پروگرام اور بین الاقوامی دہشت گردی کی اعانت شامل ہیں، ہدف بنایا گیا ہے۔