’ہم کسی کو چیلنج کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن، کسی کو اسرائیل کی ریاست کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اِس کا جواب دیا جائے گا، ثابت قدمی پر مبنی جواب‘
واشنگٹن —
وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے بدھ کے روز گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اسرائیل کی فوجی مشقوں کا معائنہ کرتے ہوئے، شام میں لڑنے والے فریقین کو متنبہ کیا کہ اسرائیل پر کسی طرح کا حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
گولانی انفنٹری برگیڈ کی مشقوں میں حصہ لینے والے سپاہیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ، ’ہم کسی کو چیلنج کرنا نہیں چاہتے. لیکن, کسی کو اسرائیل کی ریاست کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اِس کا جواب دیا جائے گا، ثابت قدمی پر مبنی جواب‘۔
اسرائیل نے سنہ 1967 میں لڑی جانےوالی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران کبھی کبھار غلطی سے توب خانے کی گولہ باری اور فائر اسرائیل کی سرزمین پر گرتے رہے ہیں، جس کے باعث اس تشویش میں اضافہ ہوتا رہا ہے کہ یہ تنازع بڑھ سکتا ہے۔
اسرائیل کو فکر لاحق ہےکہ گولان کے بہانے مذہبی شدت پسند اسرائیل پر حملے کا سوچ سکتے ہیں، جو صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے باغیوں کے ساتھ ساتھ لڑ رہے ہیں۔
نیتن یاہو نےبارہا کہا ہے کہ اسرائیل کا جنگ میں کودنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ تاہم، فوجیوںٕ سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے اِس بات کی طرف توجہ دلائی کہ وہ ’کئی قسم کے امکانات‘ کو مدِنظر رکھ کر تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی ریڈیو پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ، ’ہم یہاں جو مشق کر رہے ہیں وہ محض علمی نوعیت کی نہیں ہے‘۔
اُن کے بقول، ’ہمارے اِردگِرد کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ شورش زدہ اور تغیر پذیر صورتِ حال ہے اور ہمیں اِسے مدِنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی ہوگی‘۔
اسرائیل نےشامی اسلحے کےمشتبہ ذخیروں پر کم از کم تین فضائی حملے کیے ہیں، جہاں سے لبنان کےحزب اللہ کے جنگجوؤں کو ہتھیار بھیجے جاتے تھے، اور گولان سے اسرائیل کے اندر کی جانے والی گولہ باری کے جواب میں، اسرائیل نے اکثر و بیشتر شامی مورچوں پر جوابی فائر کھولا ہے۔
گولانی انفنٹری برگیڈ کی مشقوں میں حصہ لینے والے سپاہیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ، ’ہم کسی کو چیلنج کرنا نہیں چاہتے. لیکن, کسی کو اسرائیل کی ریاست کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اِس کا جواب دیا جائے گا، ثابت قدمی پر مبنی جواب‘۔
اسرائیل نے سنہ 1967 میں لڑی جانےوالی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران کبھی کبھار غلطی سے توب خانے کی گولہ باری اور فائر اسرائیل کی سرزمین پر گرتے رہے ہیں، جس کے باعث اس تشویش میں اضافہ ہوتا رہا ہے کہ یہ تنازع بڑھ سکتا ہے۔
اسرائیل کو فکر لاحق ہےکہ گولان کے بہانے مذہبی شدت پسند اسرائیل پر حملے کا سوچ سکتے ہیں، جو صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے باغیوں کے ساتھ ساتھ لڑ رہے ہیں۔
نیتن یاہو نےبارہا کہا ہے کہ اسرائیل کا جنگ میں کودنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ تاہم، فوجیوںٕ سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے اِس بات کی طرف توجہ دلائی کہ وہ ’کئی قسم کے امکانات‘ کو مدِنظر رکھ کر تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
نیتن یاہو نے اسرائیلی ریڈیو پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ، ’ہم یہاں جو مشق کر رہے ہیں وہ محض علمی نوعیت کی نہیں ہے‘۔
اُن کے بقول، ’ہمارے اِردگِرد کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ شورش زدہ اور تغیر پذیر صورتِ حال ہے اور ہمیں اِسے مدِنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی ہوگی‘۔
اسرائیل نےشامی اسلحے کےمشتبہ ذخیروں پر کم از کم تین فضائی حملے کیے ہیں، جہاں سے لبنان کےحزب اللہ کے جنگجوؤں کو ہتھیار بھیجے جاتے تھے، اور گولان سے اسرائیل کے اندر کی جانے والی گولہ باری کے جواب میں، اسرائیل نے اکثر و بیشتر شامی مورچوں پر جوابی فائر کھولا ہے۔