اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ تصادم کے واقعات کو قیامِ امن کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا جارہا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو حکومت میں آبادکاری کے حامی اتحادیوں اور عالمی سطح پر قیام امن کے لیے آباد کاری روکنے کے مطالبات کی وجہ سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فلسطینی اور اسرائیلی آبادکاروں کے درمیان تصادم کے حالیہ واقعات ایک ایسے وقت میں پیش آئے جب امریکہ کی ثالثی سے اردن کے شہر عقبہ میں اسرائیلی اور فلسطینی سیکیورٹی حکام کے درمیان تشدد پر قابو پانے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے عقبہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اپنے مشترکہ اعلامیے میں کہا تھا کہ اسرائیل اور فسلطینیوں نے ماضی کے معاہدوں پر عمل درآمد اور پُرتشدد کارروائیوں کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
آٹھ نکاتی اعلامیے میں بھی کہا گیا تھاکہ اسرائیل نے آئندہ چار ماہ کے لیے نئی آبادکاری نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔تاہم یہ اعلامیہ جاری ہونے کے کچھ ہی دیر بعد وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے آبادکاری جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا اور پیر کو مغربی کنارے میں ایک بار پھر کشیدگی میں اضافہ ہو گیا۔
کشیدگی میں یہ اضافہ مشتبہ فلسطینی مسلح شخص کی فائرنگ سے ایک اسرائیلی نژاد امریکی شخص کے قتل کے بعد ہوا تھا۔
پیر کو ہونے والا یہ واقعہ فلسطینیوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان ہونے والے تصادم کی حالیہ لہر کا حصہ ہے جس سے فریقین کو سیکیورٹی امور پر باہمی تعاون کے لیے آمادہ کرنے کی امریکہ کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق ایک مشتبہ فلسطینی نے جیریچو ہائی وے پر اسرائیلی شخص کو گاڑی میں قتل کیا جب کہ امریکہ محکمہ خارجہ نے بھی مذکورہ شخص کے امریکی شہری ہونے کی تصدیق کی تھی۔
SEE ALSO: یہودی بستیوں کی تعمیر: امریکہ کی اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل پر تنقید کی حمایتاس سے قبل اتوار کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے شہر ہوارہ میں ایک مسلح شخص نے مغربی کنارے کی یہودی بستی ہر برکا سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ مسلح شخص موقعے سے فرار ہوگیا تھا۔
اس واقعے کے بعد صورتِ حال اچانک کشیدہ ہوگئی تھی اور یہودی آباد کاروں کے ایک گروپ نے ہوارہ کی ایک مرکزی شاہراہ پر توڑ پھوڑ شروع کردی تھی۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ہوارہ میں ہونے والی کشیدگی کے بعد اسرائیلی جانب سے چلنے والی گولی سے ایک 37 سالہ فلسطینی ہلاک ہوگیا تھا۔ فلسطینی حکام کے مطابق اس تصادم میں لگ بھگ 95 فلسطینی زخمی ہوئے۔
فلسطینی میڈیا کے مطابق پیر کو ہوارہ میں ہونے والی کشیدگی میں متعدد گاڑیوں اور اور تقریباً 30 مکانات کو بھی نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔
اس صورتِ حال پر اسرائیل کے وزیرِ دفاع یووال گالانت نے جائے وقوعہ کے دورے کے موقعے پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شہریوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہوارہ میں کیا ہوا؟
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہوارہ میں موجود اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے رپورٹر شہار گلک کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے کشیدگی پیدا ہونے کے بعد سڑکیں بلاک کردی تھیں۔ تاہم 200 سے 300 آبادکار پیدل چلتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
گلک کے مطابق کشیدگی سے متعلق سوشل میڈیا پر معلومات آنے کے بعد بھی موقع پر مٹھی بھر پولیس اور فوجی اہل کار موجود تھے۔
ان کے بقول اس علاقے کو ایسے سخت گیر آباد کاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جو فلسطینیوں کی املاک اور جائیدادوں پر ماضی میں بھی حملے کرتے رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان لیفٹننٹ کرنل رچرڈ ہیکرڈ کا کہنا تھا کہ کشیدگی پر قابو پانے کے لیے علاقے میں اضافی فوجی نفری بھجوائی گئی ہے۔
اتوار کو رات گئے تک دو بٹالین متاثرہ علاقوں میں تعینات کیے گئے تھے اور اس کے بعد پیر کو بھی دو مزید بٹالین وہاں بھجوائے گئے ہیں۔ ان بٹالینز میں سینکڑوں فوجی شامل ہیں۔
پیر کو دن ڈھلے تک صورتِ حال پرُامن رہی البتہ فوج نے آبادکاروں کے فوج کے ساتھ تصادم کے واقعات رپورٹ کیے۔
اسرائیلی پولیس کے ترجمان ڈین ایلسڈن کے مطابق اتوار کو ہونے والی ہنگامہ آرائی میں آٹھ اسرائیلیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے چھ کو رہا جب کہ دو کو نظر بند کردیا گیا۔
بڑھتے ہوئے خدشات
مغربی کنارے میں یہ حالیہ کشیدگی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان اور یہودیوں کا پاس اوور فیسٹیول شروع ہونے میں چند ہفتے ہی باقی ہیں۔
اس دوران امریکہ سمیت مختلف غیر ملکی ثالث کشیدگی کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جب کہ نیتن یاہو کو اپنی کابینہ میں شامل سخت گیر سیاسی گروپس کی جانب سے تنقید اور چیلنجز کا سامنا ہے۔
پیر کو ہونے والے فائرنگ کے واقعے کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان میں دوطرفہ حملوں کی مذمت کی اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو سراہا تھا۔
وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور صدر آئزک ہیزروگ نے آباد کاروں سے ہنگامہ خیزی کی کارروائیو ں سے دور رہنے کی اپیل کی تھی۔جب کہ اسرائیل کے حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے مغربی کنارے کے حالیہ واقعات کو قتلِ عام کی کوشش سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
SEE ALSO: عرب خطے کی تقسیم کا اہم کردار لارنس آف عریبیہ، جسے گمنامی کی خواہش کراچی لے آئی تھیماہرین کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل بعض اتحادیوں نے کشیدہ صورت حال کو ہوا دینے والے بیانات بھی دیے ہیں۔
حکومت کی اتحادی جوئش پاؤر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ پارلیمان نے آرمی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات فلسطینیوں کو باز رکھنے میں مدد دیں گے اور وہ ان کے نتائج کو مثبت طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے بیان میں اسرائیلی حکومت کو کشیدگی کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا:’’ آباد کاروں کے دہشت گردی کے حملوں کو قابض فوجوں کی سرپرستی حاصل ہے۔‘‘
حالیہ واقعات کا پس منظر
فلسطینی مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی کے علاقوں کو اپنی مستقبل کی مجوزہ ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے یہ علاقے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد حاصل کیے تھے۔
اس وقت مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں تقریباً سات لاکھ آباکار بستے ہیں۔ بین الاقوامی برادری ان علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کو غیر قانونی تصور کرتی ہے اور اس خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہے۔
رواں برس مختلف واقعات میں اسرائیلی فورسز اور شہریوں کے ہاتھوں 62 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے تقریباً نصف کا تعلق عسکریت پسند گروپوں سے تھا۔ اسی عرصے میں فلسطینیوں کے حملوں میں ایک شہری سمیت 14 اسرائیلیوں کی جانیں گئیں۔
SEE ALSO: چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ، جس نے مشرقِ وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیاشہری حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ بی تسیلم کے مطابق گزشتہ سال مختلف مواقع پر ہونے والی جھڑپوں ار تصادم کے واقعات میں 150 فسلسطینی اور 30 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔
گزشتہ برس نومبر میں اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت بننے کے بعد فلسطینیوں میں تشویش پائی جاتی ہے کیوں کہ ان کی حکومت میں ایسی سخت گیر پارٹیاں شامل ہیں جو مغربی کنارے میں آبادکاری کے عمل جاری رکھنے کی حامی ہیں۔
اسرائیلی اور فسلطینیوں کے درمیان گزشتہ کئی برسوں کے دوران اسرائیلی کی آبادکاری بنیادی تنازع کی حیثیت رکھتی ہے۔
نیتن یاہو کو درپیش مشکلات
ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو ملک کے اندر اور سفارتی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیویارک میں قائم تھنک ٹینک شیلوم ہرتمن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے محقق اموتز اسا ایل کے مطابق اگر موجودہ حالات میں اسرائیلی وزیرِ اعظم تشدد واقعات پر قابو نہیں پاتے تو وائٹ ہاؤس سے ان کے اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق اسا ایل کا کہنا تھا کہ یہ اب اسرائیلی وزیرِ اعظم کے مفاد میں ہے کہ وہ آبادکاروں کی پُر تشدد اقدامات کو قابو کریں۔
SEE ALSO: سعودی عرب: جب شاہ سعود اپنی ہی سازش کا شکار ہو کر اقتدار سے محروم ہوئےامریکی محکمہ خارجہ پہلے ہی مغربی کنارے میں فریقین کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں کی مذمت کرچکا ہے۔پیر کو محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے بیان میں دو طرفہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے تشدد پر قابو پانے پر زور دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم اسرائیلی حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ آبادکاروں کے حملے میں ہونے والے املاک کے نقصان کا ازالہ کرے گی اور ذمے داروں کو قانون کے سامنے جواب دہ بنائے گی۔
اس سے قبل عقبہ مذاکرات کے بارے میں اتوار کو امریکی محکمۂ خارجہ کے جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل آئندہ چار ماہ تک نئی آبادکاری نہیں کرے گا تاہم اس کے کچھ دیر بعد نیتن یاہو نے کہا تھا کہ تعمیراتی کام منصوبہ بندی کے مطابق جاری رہے گا۔
انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ کام نہ رکا ہے اور نہ رکے گا۔ان کے اس اعلان کو اپنی کابینہ میں شامل سخت گیر عناصر کی حمایت برقرار رکھنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔