|
امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زورد دیا ہے کہ وہ غزہ میں لڑائی کو عارضی طور پر روکنے، انسانی بنیادوں پر امداد میں اضافے اور حماس کے پاس موجود کچھ یرغمالوں کو رہا کرنے کی تجویز کی منظوری اور اس کے نفاذ کے لیے حمایت کرے۔
اس تجویز کو غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے کیوں کہ تنازع کے فریقین میں سے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ابھی تک اس تجویز پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے جب کہ اسرائیلی حکام نے کچھ تفصیلات پر سوال اٹھائے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی طرف سے دیکھے گئے امریکی قرارداد کے مسودے میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی تجویز کو "بغیر کسی تاخیر اور شرط کے" مکمل طور پر قبول کرے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’’اس معاہدے پر تیزی سے عمل درآمد سے جنگ بندی، غزہ کے آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا، یرغمالوں کی رہائی، انسانی بنیادوں پر امداد میں اضافہ، بنیادی سروسز کی بحالی اور شمالی غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔"
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ حماس نے ابھی تک جنگ بندی کی تجویز پر کوئی جواب نہیں دیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اس تجویز کے اہم نکات حماس کی جانب سے کئی ہفتے قبل پیش کردہ تجویز کے اہم نکات سے تقریباً مماثلت رکھتے ہیں۔
مجوزہ معاہدے کے بنیادی خاکے میں لڑائی میں چھ ہفتے کا تعطل، غزہ سے کچھ یرغمالوں کی رہائی، فلسطینیوں کے لیے امداد کے 600 ٹرکوں کی روزانہ ترسیل اور تنازع کے مستقل خاتمے کے لیے مزید مذاکرات شامل ہیں۔
امریکی حکام نے پیر کو اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ جنگ بندی کی تجویز، اگرچہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے عوامی طور پر پیش کی تھی، لیکن یہ ایک اسرائیلی تجویز ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے غزہ جنگ کو روکنے اور عسکریت پسندوں کے زیرِ قبضہ یرغمالوں کی رہائی کے لیے تجویز کردہ معاہدہ ایک جزوی خاکہ ہے۔
نیتن یاہو نے طویل عرصے سے غزہ میں حماس کے خاتمے زور دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا، "یہ دعویٰ کہ ہم نے اپنی شرائط پوری کیے بغیر جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، غلط ہے۔"
صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے غزہ میں جنگ بندی کے ایک نئے معاہدے کا خاکہ پیش کیا تھا جس میں لڑائی میں وقفہ اور حماس کے ہاتھوں کچھ یرغمالوں کی رہائی شامل تھی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اگر فلسطینی عسکری تنظیم حماس مجوزہ جنگ بندی پر راضی ہوتی ہے تو اسرائیل بھی اسے قبول کرلے گا۔ تاہم اسرائیلی حکام نے جنگ بندی کی تجویز کی تفصیلات پر سوال اٹھایا ہے۔
SEE ALSO: بائیڈن کاجنگ بندی پر زور،"نیا دن شروع کرنے کا وقت آگیا ہے"اسرائیلی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ "یرغمالوں کی واپسی کے مقصد سے جنگ روک دی جائے گی" جس کے بعد حماس کو ختم کرنے کے جنگ کے ہدف کو حاصل کرنے کے بارے میں بات چیت کی جائے گی۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے اسرائیلی حکام کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ محکمہ خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے طویل مدتی سلامتی کے مفادات کو آگے بڑھائے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق بلنکن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ اور کابینہ کے وزیر بینی گینٹز کے ساتھ الگ الگ ٹیلی فون پر گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ جنگ بندی کی تجویز "تمام یرغمالوں کی رہائی کو یقینی بنائے گی اور پورے غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ کرے گی۔"
SEE ALSO: امریکہ کو غزہ میں جنگ بندی کی توقع؛ ’حماس آمادہ ہو تو اسرائیل بھی مان جائے گا‘ملر نے گینٹز کے ساتھ بلنکن کی کال کے بارے میں کہا کہ وزیر خارجہ نے اس تجویز کے لیے اسرائیل کی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ حماس کو بلا تاخیر معاہدہ کرنا چاہیے۔
اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا کہ امن کی تجویز "اسرائیل کی لبنان کے ساتھ سرحد کے ساتھ پرسکون ہونے کے امکان کو بھی کھول سکتی ہے جو اسرائیلیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دے گی۔
نیتن یاہو کو غزہ اور حماس کے لیے اسرائیل کے منصوبے پر دائیں بازو کی مخلوط حکومت اور اپنے ملک میں مخالف فریقوں کے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ان کی کابینہ کے دو دائیں بازو کے ارکان، قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر اور وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے ہفتے کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ بائیڈن کی تجویز سے اتفاق کرتے ہیں تو نیتن یاہو کی حکومت کو گرا دیں گے۔
صدر بائیڈن نے آٹھ ماہ سے جاری تنازع میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کی تجویز دیتے ہوئے جمعہ کو کہا تھا کہ امن معاہدے میں ابتدائی چھ ہفتوں کی جنگ بندی شامل ہوگی جس میں جزوی اسرائیلی فوجی انخلاء ہوگا۔ تجویز کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی ہوگی جب کہ ثالثوں کے ذریعے "دشمنی کے مستقل خاتمے" پر بات چیت کی جائے گی۔
SEE ALSO: غزہ میں مزید4یرغمال ہلاک ہو چکے ہیں: ہگاریاسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہیں جب کہ مذاکرات کے ثالث امریکہ، قطر اور مصر فریقین کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کی کئی کوششیں کر چکے ہیں۔
غزہ جنگ کو لگ بھگ آٹھ ماہ ہو گئے ہیں جس کے دوران غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 253 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔