انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے ایک سروے کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی طالبان اور امریکہ میں امن معاہدہ ہونے کے بعد غیر ملکی فوج کے انخلا کی خواہاں ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق دو دن قبل سامنے والے سروے میں شامل 80 فی صد افغان شہریوں کی رائے تھی کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ سیاسی عمل اور مذاکرات سے ممکن ہے جب کہ 20 فی صد شہریوں کی رائے میں امن کا قیام عسکری کارروائیوں سے ہو سکتا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے سروے میں 46 فی صد افغان شہریوں کی رائے تھے کہ امن معاہدہ ہونے کے بعد غیر ملک افواج کو افغانستان سے چلے جانا چاہیے جب کہ 33 فی صد کی رائے تھی کہ غیر ملکی فوج کو امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں قیام کرنا چاہیے۔
یہ سروے افغانستان کے 34 صوبوں میں کیا گیا جس میں پانچ ہزار سے زائد شہریوں کی رائے شامل کی گئی۔ سروے کا آغاز 23 نومبر اور اختتام 20 دسمبر 2019 کو کیا گیا۔ اس میں پانچ فی صد غلطی کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے۔
سروے میں شامل کیے گئے پانچ ہزار افراد میں سے 61 افراد سے آن لائن رائے لی گئی جب کہ 39 فی صد افراد کے دوبدو انٹرویو کیے گئے۔
سروے میں 57 فی صد افراد نے طالبان سے بھی اپنی صفوں میں شامل غیر ملکی جنگجوؤں کو ان کے ممالک میں واپس بھیجنے کی رائے دی۔ زیادہ تر افراد کا خیال تھا کہ یہ جنگجو القاعدہ اور دیگر عسکری تنظیموں کے لیے کام کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ نے ستمبر 2018 میں طالبان سے براہ راست مذاکرات کا آغاز کیا تھا جب کہ واشنگٹن نے افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کو مذاکرات کے لیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا گیا۔ ان مذاکرات کے آغاز کا مقصد امریکہ کے اس طویل ترین جنگ کا خاتمہ اور افواج کی پرامن واپسی کو ممکن بنانا تھا۔
افغان مفاہمت کے لیے زلمے خلیل زاد کی امریکہ کے خصوصی ایلچی کی تقرری پر بھی افغان تقسیم نظر آتے ہیں۔ 41 فی صد کے خیال میں ان کا انتخاب امن عمل کے لیے درست ہے جب کہ 39 فی صد ان کی تقرری کے خلاف ہیں۔ اسی طرح 20 فی صد افراد ان کے لیے کسی قسم کی رائے نہیں رکھتے۔
انسٹیٹیوٹ آف وار اینڈ پیس اسٹڈیز کے سروے میں شامل کیے گئے 5038 افراد میں سے 3274 مرد جبکہ 1764 خواتین تھیں۔
سروے میں شامل 83 فی صد افراد کا خیال تھا کہ افغان مفاہمتی عمل میں خواتین کو شامل کرنا چاہیے تاہم 17 فی صد اس کے خلاف تھے۔
'اے پی' کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں جس افغان امن معاہدے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے تحت جنگ کے بعد افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مقامی لوگ ہی کریں گے کہ مستقبل کا آئین کیسا ہو اور اس میں خواتین کو کیا حقوق دیے جائیں گے۔ اسی طرح اس میں یہ بھی طے کیا جائے گا کہ ذرائع ابلاغ کو آزادی ہو اور ہر کسی کو اظہار رائے کی اجازت ہو۔ مذاکرات میں یہ بھی طے کیا جائے گا کہ طالبان کے جنگجوؤں کا مستقبل کیا ہوگا جب کہ کابل میں اس وقت حکومت میں شامل جنگجو سرداروں اور ان کے عسکری گروہوں کا کیا کردار ہوگا۔
افغانستان کے شہریوں کی اکثریت اس خوف میں مبتلا ہے کہ اگر امریکہ بغیر کسی امن معاہدے کے افغانستان سے فوجی انخلا کرتا ہے تو وہ دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو جائیں گے۔
'اے پی' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان افغانستان کے نصف کے قریب علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں اسی لیے وہ روزانہ کی بنیاد پر افغان یا امریکی فوجیوں پر حملوں کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کی کارروائیوں میں کابل حکومت یا کوئی بھی سرکاری اہلکار نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
ایک جانب طالبان امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ان کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں طالبان نے عارضی جنگ بندی بھی کی تھی۔