کیا نواز شریف کی بیماری پر سیاست ہو رہی ہے؟

فائل فوٹو

لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے اپنے ایک حالیہ بیان کہا ہے کہ علاج کے معاملے پر تضحیک کا نشانہ بننے کے بجائے وہ عزت کی موت کو ترجیح دیں گے۔

نواز شریف کے اس بیان پر سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ حکومت اور اس کے حامیوں کا الزام ہے کہ نواز شریف کو پاکستانی اسپتالوں سے علاج کرانا پسند نہیں جب کہ سابق وزیرِ اعظم کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کی بیماری پر سیاست کر رہی ہے اور انہیں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال گھمایا جارہا ہے۔

نواز شریف کے اہلِ خانہ کے مطابق انہوں نے بدھ کو جیل میں ملاقات کے دوران سابق وزیرِ اعظم کو اسپتال جانے پر قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے اسپتال جانے سے انکار کردیا ہے۔

کیا نواز شریف واقعی بیمار ہیں؟

نواز شریف کی بیماری کی خبریں جنوری کے وسط میں سامنے آئی تھیں جب ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے انکشاف کیا تھا کہ جیل میں نواز شریف کو بازو میں درد کی شکایت ہوگئی جو جو دل کی بیماری کی علامت ہے۔

ان اطلاعات کے بعد جیل انتظامیہ نے لاہور کے جناح ہسپتال کے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ بنایا تھا جس نے 16جنوری کو جیل میں نواز شریف کا طبی معائنہ کرنے کے بعد دل کی بیماری کی تصدیق کی تھی اور انہیں اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی تھی۔

نواز شریف کو چند روز بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لایا گیا تھا اور ان کے مختلف ٹیسٹس کیے گئے تھے۔ لیکن انہیں اسپتال میں داخل کرنے کے بجائے دوبارہ جیل بھیج دیا گیا تھا۔

جنوری کے آخر میں نواز شریف کے طبی معائنے کے لیے ایک نیا بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس میں راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔ اس بورڈ نے بھی رائے دی تھی کہ نواز شریف کو اسپتال میں داخل ہونا چاہیے۔

اس رپورٹ کے بعد نواز شریف کو لاہور کے سروسز اسپتال اور اس کے بعد جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا لیکن ان کے دل کے علاج کے لیے عملی اقدامات نہیں ہو سکے تھے۔

اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی طبی بنیادوں پر نواز شریف کی رہائی کی درخواست مسترد ہو گئی تھی جس کے بعد حکومت نے ایک بار پھر سابق وزیرِ اعظم کو جیل بھیج دیا تھا۔

نواز شریف کو احتساب عدالت سے پیشی کے بعد پولیس کی بکتر بند گاڑی میں لے جایا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

بیماری پر سیاست کون کر رہا ہے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد کا بھی خیال ہے کہ نواز شریف کی بیماری کے معاملے پر سیاست ہو رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ نواز شریف واقعی بیمار ہیں لیکن نواز شریف اور ان کا خاندان پاکستان میں علاج کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سلمان عابد کا کہنا تھا کہ بیماری کے معاملے پر سرکاری میڈیکل بورڈز اور نوازشریف کے ذاتی معالج کے مؤقف میں تضاد ہے۔ ان کے بقول نواز شریف اگر پاکستان میں اپنی مرضی کے اسپتال سے علاج کرانا چاہیں تو حکومت کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

سلمان عابد کے بقول نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کی اجازت بہر حال عدالت نے ہی دینی ہے اور اگر انہیں ریلیف مل گیا تو وہ علاج کے لیے باہر چلے جائیں گے۔

امریکہ میں مقیم سینئر پاکستانی صحافی شاہین صہبائی نے اپنی ایک حالیہ ٹوئٹ میں نواز شریف پر کڑی تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لیے اب کچھ نہیں بچا تو انہوں نے اپنی بیماری پر سیاست شروع کر دی۔

شاہین صہبائی نے مزید لکھا ہے کہ اگر نواز شریف کو جیل میں چار مرتبہ انجائنا کی تکلیف ہو چکی ہے تو انہیں علاج کے لیے اسپتال منتقل کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ علاج نہیں کرانا چاہتے تو ان سے یہ لکھوا لیا جائے۔

'نواز شریف خبروں میں رہنا چاہتے ہیں'

وزیر اعلٰی پنجاب عثمان بزدار کے سیاسی مشیر اکرم چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ نواز شریف کے پاس خبروں میں رہنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ اپنی بیماری پر سیاست کریں۔

انہوں نے پیشکش کی کہ نواز شریف لکھ کر دے دیں کہ وہ اپنا علاج کہاں سے کرانا چاہتے ہیں تو پنجاب حکومت ان کا علاج اسی اسپتال سے کرائے گی۔

فائل فوٹو

اکرم چوہدری کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت اس معاملے کو سیاست کی نذر نہیں کر رہی۔ نواز شریف کے علاج کے لیے میڈیکل بورڈ بنائے گئے لیکن وہ خود ہی علاج سے انکاری ہیں۔

'عمران خان نواز شریف کو تکلیف میں دیکھنا چاہتے ہیں'

نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اپنے والد کی بیماری کے معاملے پر ٹوئٹر پر خاصی سرگرم ہیں۔ اپنی حالیہ ٹوئٹس میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ تین دفعہ ملک کے وزیرِ اعظم کے ساتھ روا رکھا جانے والے سلوک قابلِ افسوس ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ علاج کے معاملے پر نواز شریف کے ساتھ پنجاب حکومت نے مذاق کیا۔ اب نواز شریف اپنا علاج کرانے کو تیار نہیں جب کہ ان کی صحت دن بدن بگڑتی جارہی ہے۔

سینئر لیگی رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو نواز شریف کو سزا دینے اور تکلیف پہنچانے کا شوق ہے۔

جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ جب وہ پی ٹی آئی میں تھے تو اس بات کے گواہ ہیں کہ عمران خان کی خواہش ہوتی تھی کہ نواز شریف کو کسی نہ کسی طریقے سے سزا ملے۔

نواز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق نواز شریف کا فوری طور پر عملی سیاست میں آنا تو ممکن نہیں ہے، لیکن ان کے بقول پاکستان کے عوام کا ایک بڑا حصہ آج بھی نواز شریف کو اپنا لیڈر مانتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی کمان فی الحال شہباز شریف کے ہاتھ میں ہی رہے گی لیکن نواز شریف کو اگر عدالت نے اجازت دے دی تو وہ علاج کے لیے باہر چلے جائیں گے اور ان کی واپسی کب ہو گی، یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔

نواز شریف کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں 24 دسمبر 2018ء کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے نواز شریف کی درخواست پر انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔

نواز شریف نے طبی بنیادوں پر اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ تاہم نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کر رکھی ہے۔