میاں محمد نواز شریف ایک پرائیویٹ ایئرلائنز کی پرواز سے لاہور پہنچے جس کے بعد نیب کے حکام نے انہیں گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب ایسے میں اطلاعات آ رہی تھیں کہ انتظامیہ نے شدید رکاوٹوں کے ذریعے شہر کو جگہ جگہ سے بند کر دیا ہے۔ شہر کی صورتحال ظاہر کرنے کے لئے معروف گلوکار اور سماجی کارکن علی آفتاب سعید نے گوگل پر لاہور کا نقشہ ٹویٹ کیا جس میں ہر طرف رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔
— Ali Aftab Saeed (@aliaftabsaeed) July 13, 2018
کل سے سوشل میڈیا پر ن لیگ کے کارکنوں کے کریک ڈاؤن کی اطلاعات آرہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ سزا کے بعد نواز شریف کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ نواز لیگ کے کارکنوں اور راہنماؤں کو حراست میں لیا جا رہا ہے؛ اور لاہور کا محاصرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ پرامن احتجاج جمہوریت میں بنیادی حق ہوتا ہے۔
Understand the legal grounds for arrest of MNS after NAB conviction but on what grounds are workers and leaders being arrested? Why is Lahore under siege ? Right to peacful protest is fundamental for democracy.
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) July 13, 2018
صحافی اور تجزیہ نگار مسلسل اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ممتاز صحافی امتیاز عالم نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج لاہور کی صورت حال بالکل سرینگر جیسی ہے۔ دونوں جگہوں پر ایک ہی طرح کا جبر، کارکنوں پر کریک ڈاون، انٹرنیٹ کی بندش، سڑکوں پر رکاوٹیں اور لیڈروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دونوں طرف آزادانہ اور شفاف حق خودارادیت کی نفی کی جارہی ہے‘‘۔
Lahore-Srinagar:Similar scenes of repression, crackdown on activists, internet off, streets blocked, leaders arrested in both Lahore and Srinagar.And the issue is same: free and fair adult franchise being denied in both the occupied Kashmir by Indian army and by police in Lahore
— Imtiaz Alam (@ImtiazAlamSAFMA) July 13, 2018
اینکر پرسن مبشر زیدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’یہ مقبوضہ لاہور ہے!‘‘
MAQBOOZA LAHORE
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) July 13, 2018
میڈیا سنسرشپ کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا ہے کہ ’’میڈیا بلیک آؤٹ اس قدر زیادہ ہے کہ اب ٹی وی چینل ریلیوں کی ساکن تصاویر لگا رہے ہیں‘‘۔
Media black-out of League reception is touching hilarious levels. Now channels are using still pictures of the rally. Factual reporting is killed by fear. Everyone is playing to the gallery. Pathetic
— Syed Talat Hussain (@TalatHussain12) July 13, 2018
اس پر صحافی عمر چیمہ نے ٹویٹ کیا کہ ’’میڈیا سے جتنی زیادہ بہادری کی توقع میاں نواز شریف سے کر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بزدلی کا مظاہرہ خود ان کی جانب سے ہو رہا ہے‘‘۔
ن لیگ کی ریلیوں کے میڈیا بلیک کی وجہ سے دن بھر صحافی اور تجزیہ نگار لاہور کی سڑکوں کی ویڈیوز لگاتے رہے۔ رضا رومی نے ٹویٹ کی کہ ’’کیونکہ مین اسٹریم میڈیا میں ن لیگ کی ریلیوں کا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے اس لئے یہ ویڈیوز پوسٹ کر رہا ہوں‘‘۔
Didn’t want to post these videos. But since mainstream media blackout is a reality here’s a clip. #nawazsharifreturns pic.twitter.com/JRCsz3KtQf
— Raza Ahmad Rumi (@Razarumi) July 13, 2018
ایسے میں بعض تجزیہ نگار پنجاب کی نگران حکومت پر تنقید کرتے رہے کہ ان کے شہر کو بند کرنے کے اقدامات بے جا تھے۔ سلمان مسعود لکھتے ہیں کہ ’’پنجاب کی نگران انتظامیہ نے اس قدر بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کو بھی ان کے اقدامات پر تنقید کرنی پڑی‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ مسلم لیگ ن کے مخالف کے طور پر مجھے کہنا تو یہ چاہئے کہ نواز شریف کو اتنی ہی سیاسی آزادی دینی چاہئے جتنی کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد میں دی تھی۔ مگر میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور مسلم لیگ نواز کو پرامن احتجاج کا حق ویسے ہی ملنا چاہئے جیسے کہ آئین ضمانت دیتا ہے۔
As an opponent i should say pml n should be allowed as much freedom as nawaz sharif allowed political opponents in model town & Islamabad but unlike NS i actually believe in democracy . Pml n should have freedom of assembly as guaranteed in the constitution
— Asad Umar (@Asad_Umar) July 13, 2018
پی ٹی آئی رہنما نعیم الحق نے لکھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے نواز شریف کی واپسی پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیکھ کر مجھے ہر بڑے احتجاج سے پہلے مسلم لیگ نواز کی حکومت کا پی ٹی آئی کے کارکنان کے ساتھ برتاؤ یاد آگیا ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی کارکنان کی اتنے بڑے پیمانے پر حراستوں سے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
صحافی اور تجزیہ نگار ضیغم خان نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ’’ن لیگ کے راہنماؤں کو نگران وزیر اعلی حسن عسکری سے ناراض ہونے کی بجائے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انہوں نے اپنے اقدامات سے کارکنان کو جوش دلایا اور انہیں باہر آنے پر مجبور کیا‘‘۔
Rather than getting angry, PML-N leaders should send a thank you note to Professor Askari. If good Professor had not helped so generously, it could have been quite difficult for them to charge and mobilize their workers.
— zaigham Khan (@zaighamkhan) July 13, 2018
جب کہ وائس آف امریکا ریڈیو کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے نگران وزیر اطلاعات علی ظفر نے کہا کہ پنجاب کی نگران صوبائی حکومت نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے پاکستان واپس آنے سے پہلے شہر میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔