جمعرات کو امریکی وزیرِخارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ افغان حکومت اورطالبان کے ساتھ رابطوں کا محض آغاز ہوا ہے، اور ابھی یہ غیر واضح ہے کہ یہ رابطےسودمند ثابت ہوں گے۔ ہلری کلنٹن اور امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے افغان تنازع پر برسلز میں بند کمرے کے اجلاس میں اپنےنیٹوحلیفوں سے بات چیت کی۔
نیٹو کے صدر دفتر برسلز میں مذاکرات افغانستان سے آنے والی اُن خبروں کے پس منظر میں ہوئے جِن کے مطابق افاعن حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحتی رابطے جاری ہیں اور اِس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے شورش پسند رضامند نظر آرہے ہیں۔
نیٹو نیوز کانفرنس میں امریکی وزیرِ خارجہ کلنٹن اور وزیرِ دفاع گیٹس نے اِن اطلاعات کے بارے میں محتاط تبصرہ کیا۔
وِڈیو سنئیے:
مسز کلنٹن کا کہنا ہے کہ امن کے إِن رابطوں کا صرف آغاز ہوا ہے۔ ابھی راستے میں بہت سی رکاوٹیں آئیں گی لہٰذا مصالحت کے خاطر خواہ امکانات کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
وزیرِ خارجہ کلنٹن نے کہا کہ ‘افغان جو کچھ کر رہے ہیں ہم اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں اُن کے مقاصد کا اچھی طرح علم ہے۔ اُنھیں بھی واضح طور پر معلوم ہے کہ ہم کیوں آمادہ ہیں۔ بہرحال یہ عمل ایک عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔ ایک سال سے ہم اِس قسم کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔اِس سلسلے میں، وقت کا تعین اور خلوصِ نیت سب کچھ ہے۔ فی الحال، اِس تناظر میں ہم یہ نہیں کر سکتے کہ یہ کوششیں بارآور ہوں گی یا نہیں۔
امریکی حکام نے ایک عرصے سے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اُن طالبان سے امن مذاکرات کیے جائیں جو تشد د اور القاعدہ کی حمایت ترک کرنے اور افغانستان کے آئین کی پاسداری کے لیے راضی ہیں۔
ہلری کلنٹن اور گیٹس نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے درجے کے طالبان جنگجوؤں کو مختلف ترغیبات دے کر جنگ سے دست کشی پر اُن کو رضامند کرکے مرکزی دھارے میں ڈال دیا۔ تاہم، گیٹس کا کہنا تھا کہ اِس کے باوجود مصالحتی کوششوں کی اہمیت اپنی جگہ پر موجود ہے۔
گیٹس نے کہا کہ جب بھی مواقع ملیں اُن سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ ‘میرے خیال میں ہمیں اِس موقعے سے فائدہ اٹھاناہوگا چاہے اُن کا مختصر المیعاد فائدہ ہو یا کسی طویل المیعاد منفعت کی بنیاد بنیں۔ صورتِ حال کیسی بھی ہو، اگر کوئی موقع ملتا ہے تو اُس کو ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل راسموسن نے بھی اِس عمل کی حمایت کی ہے، تاہم اُن کا کہنا ہے کہ اِس کے لیے ضروری ہے کہ عسکری دباؤ کو برقرار رکھا جائے۔راسموسن نے بقول، افغانستان میں ہر جگہ طالبان پر دباؤ ہے اور میرے خیال میں جتنا زیادہ فوجی دباؤ اتنا ہی مصالحتی عمل کے حق میں بہتر ہوگا۔